لیجئے صاحب اب ہم اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔ بیسمنٹ کا مطلب اب سمجھ میں آیا۔ یہ مکان کے نیچے بنا ہوا حصہ ہے، لیکن روشنی اور ہوا آتی ہے۔ ہمار ا بیسمنٹ کچھ زیادہ بڑا نہیں۔دروازہ کھول کر اندر آئیں تو لیونگ روم ہے، ایک چھوٹاسا بیڈ روم، کچن اور واش روم۔ تو یہ ہے بیسمنٹ کی کل مکانیت، ایسی مکانیت جو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ میں بیگم اور چھوٹے صاحب زادے نام نہاد بیڈ روم کے مکیں قرار پائے۔ بڑے دونوں بچوں نے باہر والے کمرے میں ہی اپنا سامان پھیلا دیا۔
کچھ وقت سامان دھرنے اٹھانے میں نکل گیا، ساتھ ہی کھانے پکانے کا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا۔ ابھی تک تو ہوٹل کا کھانا تھا اس لئے کچھ پتہ نہیں چلا، لیکن اب تو سودا سلف، یہاں کی زبان میں گروسری سے لے کر، کھانا پکانا، گھر کی صفائی، اور لانڈری وغیرہ سب کچھ خود ہی کرنا تھا۔ ہوٹل سے چلنے سے پہلے سامنے کے سٹور سے فوری ضرورت کے لئے انڈا، ڈبل روٹی، دودھ اور چائے وغیرہ لے آئے تھے تاکہ اترتے ہی گروسری کے لئے دوڑنا نہ پڑے۔ کینیڈا آتے وقت جو کچن کا سامان میں بادلِ نخواستہ لائے تھے وہ اس وقت ایک سرمایہ ثابت ہوا۔ فرائنگ پین، پلیٹیں، چمچے، وغیرہ اگر یہاں خریدنے پڑتے تو اچھے خاصے ڈالر مفت میں خرچ ہو جاتے اور ضروری نہیں تھا کہ سب سامان ضرورت کا مل جاتا۔
کچن کے سامان کی بھی ایک کہانی ہے۔ ہمارے ایک پرانے دوست یہاں اٹاوہ میں کئی سال سے ہیں۔ ہم نے جب انہیں امیگریشن کا بتایا تو ایک دن ان کا بہت تفصیلی ای میل ملا۔ لکھا تھا
میں سامان کی ایک فہرست بھیج رہا ہوں، جو یہاں کے لحاظ سے ضروری ہے۔امید ہے کہ آپ لوگ یہ ضروری ساما ن لا ہی رہے ہونگے۔ اگر یہ سامان نہیں لارہے تو اسے ساتھ لانے پر غور کریں۔ ویسے تو یہاں سب کچھ مل جاتا ہے، لیکن اسکے لئے اچھے خاصے ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں،جب کہ شروع کے زمانے میں جب تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی، یہ ڈالر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فہرست کچھ اس طرح ہے۔
٭سردیوں کے پہننے کے کپڑے، جیکٹ، موزے، ٹوپیاں،مفلر، گرم پاجامے، جوتے اور جاگرز وغیرہ
٭گھر میں پہننے کے روزمرہ کے کپڑے، شلوار سوٹ وغیرہ
٭ کچن کے استعمال کے ضروری برتن مثلاً فرائنگ پین، پلیٹیں، چمچے، بیلن، کڑھائی وغیرہ
٭ گھر کے استعمال کے چادر، تکیے، تولیا، جاء نماز اور ممکن ہو تو ایک کمبل فی فرد
٭ بچوں کے سکول کی اور اپنے استعمال کی ضروری سٹیشنری
٭ گرمیوں کے استعمال کے ضروری کپڑے، یہاں گرمیاں بھی پڑتی ہیں
٭ تمام دستاویزات جو انگلش میں نہیں انکا انگلش میں ترجمہ کرا لیں اور انکو اٹیسٹ کر الیں
٭ بچوں کے سکول کے سرٹیفیکیٹ، برتھ سرٹیفیکٹ، اور انکو لگائے گئے ٹیکوں کا ریکارڈ(یہ بہت اہم ہے)
٭ امریکن ایکسپریس، یا سٹی بنک کا کریڈٹ کارڈ بنوا لیں۔ یہاں اس سے کچھ مدد مل سکتی ہے
٭ جو بھی زیورات ساتھ لا رہے ہیں،اگر ممکن ہو تو کسی سنارسے اس کی قیمٹ کا تخمینہ یا رسید لے لیں۔ یہاں زیورات کے معاملے میں نہ جانے کیوں اتنی پابندیاں ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ کوئی پوچھ گچھ ہو، لیکن کچھ پتہ نہیں پوچھ بھی سکتے ہیں
٭ اگر آپ کوئی سامان بعد میں لا ئیں گے تو اسکی ایک فہرست بنا کر ساتھ لے آئیں، اور کسٹم والے سے مہر لگوا کر اپنے پاس رکھ لیں۔
میں یہ تمام باتیں ا س لئے لکھ رہا ہوں کہ میں بھکت چکا ہوں۔ جب ہم یہاں آئے تھے تو استعمال کے چند کپڑے اور جیکٹ وغیرہ لائے۔ لیکن جب یہاں بازار میں چیزوں کے دام دیکھے تو ہمارے ہوش اڑ گئے، اور مزے کی بات یہ کہ اکثر چیزیں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور چائنا کی بنی ہوئی تھیں۔
یہ تو بات تھی کہ کیا لانا ہے، اب میں لکھتا ہوں کہ کیا نہیں لانا ہے۔ اس کی فہرست کچھ اس طرح ہے
٭ کھانے پینے کا کوئی سامان کھلا نہیں لانا ہے، مثلاً مٹھائی، اور نمکو وغیرہ۔ بعض رشتہ دار پیار میں روانگی کے وقت اس قسم کی چیزیں پکڑادیتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں پر پابندی ہے۔ اسکی احتیاط کریں۔ اگر ایسی کوئی چیز سیل بند ہے تو چل سکتی ہے، مگر بلاوجہ کی پریشانی مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔
٭ یہاں اچھے داموں بیچنے کے خیال سے چمڑے کی جیکٹ اور سنگ مرمر کاسامان بالکل نہ لائیں، اور لوگوں کے مشوروں پر دھیان نہ دیں کہ یہاں ایسی چیزوں کی بہت مانگ ہے اوریہ چیزیں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ آپ اس چکر میں نہ پڑیں، ایسا کچھ نہیں ہے
جب میں نے یہ خط پڑھا تو ہمیں اپنے سامان کی فہرست کو مکمل طور سے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مجھے سب کچھ بڑا دیسی دیسی سالگ رہا تھا، لگ رہا تھا کہ میرے کزن صاحب کینیڈا کو بھی پاکستان بنا کر رہے ہیں، بس یہ لکھنا رہ گیا تھا کہ مہدی حسن اور نورجہاں کے گانے اور عزیز میاں کی قوالیاں بھی لیتے آئیں۔
مجھے تو یہ سب پڑھ کر مایوسی ہوئی لیکن بیگم کی بانچھیں کھل گئیں۔ وہ تو پہلے ہی باورچیخانہ اور گھر کا سامان لے جانےکے چکر میں تھیں، لیکن میری مخالفت کی وجہ سے رکی ہوئی تھیں، اب انکے تو مزے ہو گئے اور میرے منہ پر تالہ لگ گیا
دن بھرسامان کی اٹھا پٹخ اور جسمانی مشقت سے بے حال ہو گئے۔لیٹتے ہوئے بھی رات کا دو بج گیا اس لئے دوسرے دن بیدار ہوتے ہوتے تقریباً صبح کا گیارہ بج گیا۔
ہمارے پاس کاموں کی ایک لمبی فہرست تھی جس میں سوشل انشورنس کارڈ بنوانا سرِ فہرست تھا، اسکے بعد چائلڈ ٹیکس، بینک اکاوئنٹ کھولنا،ہیلتھ انشورنس، مقامی لائبریری کی ممبر شپ اورکار ڈرائیونگ لائسنس کی تیاری جیسے کام شامل تھے۔ یہ سب ٹھیک تھا لیکن” سب بات کھوٹی،پہلے دال روٹی” کے مصداق سودا سلفکا بندوبست کرنا تھا.
مالک مکان سے یہ پتہ چلنے کے بعدکہ یہاں نزدیک میں ایک حلال گوشت کی دکان ہے، ہماری بانچھیں کھل گئیں۔ کہنے کو تو یہ دوکان نزدیک بتائی گئی تھی لیکن ہم لوگوں کو ڈھونڈنے اور پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اندر گئے تو دل باغ باغ ہو گیا۔ گوشت کے علاوہ تمام قسم کی دالیں، پاکستانی پیکنگ میں مصالحے یہاں تک کہ ہمدرد کا روح افزا اور اچار تک دستیاب تھا۔ میں نے مقامی اردو اخباروں کی ایک ایک کاپی بھی اٹھا لی۔ سامان خرید تو لیا لیکن جب باہر نکلے تو اندازہ ہوا کہ اس سامان کو لے کر پیدل مارچ کرناکوئی آسان کام نہیں ہے۔ خاص کر آٹے کا تھیلا، چاول، گوشت اور تیل کے ڈبے جیسی بھاری چیزیں۔ سوچا کہ ٹیکسی کر لیں۔ اب پتہ نہیں ٹیکسی والا اتنی دور جائے گا یا نہیں۔ بہرحال طے یہ ہوا کہ ٹیکسی روک کر دیکھتے ہیں اگر راضی ہو گیا تو ٹھیک ہے ورنہ کچھ بھاؤ تاؤ کر کے دیکھیں گے۔ چنانچہ فٹ پاتھ پر سامان رکھ کر ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے۔اتفاق سے ایک ٹیکسی وہیں مل گئی تو مسئلہ حل ہوا۔
گھرپہنچ کر میں نے ساراسامان چھوڑ چائے بنانے کی تیاری شروع دی۔ میرا مقصدچائے کی پتی کو ٹسٹ کرنا تھا جو میں نے ابھی ابھی سٹور سے بصد شوق خریدی تھی۔ جب سے آئے تھے چائے میں مزا ہی نہیں آ رہا تھا میرا خیال تھا کہ یہ سب یہاں کی مقامی چائے کی پتی کا فسادہے۔ یوںتو میں چائے کو کوئی بہت بڑا رسیا نہیں ہوں لیکن پتہ نہیں کیوں کینیڈا آ کر اسی چائے کی طلب ہو رہی تھی جو وطنِ عزیز میں پیا کرتا تھا۔ ہو سکتا ہے وطن کے حوالے سے اس کی کوئی نفسیاتی وجہ ہو۔
ابھی چولہے پر چائے کا پانی رکھا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ یا اللہ اس پردیس میں نئے امیگرینٹ کو پوچھنے والا کون ہے؟ کہیں ٹیکسی ڈرائیور ہی تو نہیں واپس آگیا، ہم نے تو اسے پورے پیسے دئے تھے۔ کہیں کچھ سامان تو گاڑی میں نہیں رہ گیا ہے؟
بیگم نے دروازہ کھولا تو ایک مہذب دیسی خاتون دو بچوں اور ہاتھ میں کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹرے لئے کھڑی تھیں۔ غالباً مالک مکان کی بیگم تھیں
“معاف کیجئے گا میں چند روز سے اپنے رشتہ داروں سے ملنے دوسرے شہر گئی ہوئی تھی، اس لئے پہلے دن آپ لوگوں سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ یہ کچھ سنیک وغیرہ ہیں بچوں کے لئے”
میں نے مزید سننے کی زحمت گوارہ نہیں کی، اس وقت میرا پورادھیان چائے میں تھا۔ ہا ں مہمانداری کے تقاضے کے پیشِ نظر میں نے ایک پیالی پانی اور بڑھا دیا۔
چائے تیار ہوئی، ویسی ہی بد مزہ چائے جیسی اب تک بن رہی تھی۔گویا یہ چائے کی پتی بھی بے کار نکلی۔ مجھے اس پتی سے بہت توقعات تھیں۔ میر ا موڈبالکل خراب ہو گیا۔بہرحال اب جیسی بھی تھی،مہمان کو یہی چائے پیش کر دی۔
“ابھی تک کوئی ڈھنگ کی پتی نہیں مل سکی ہے۔ بس ایسے ہی گذراہ چل رہا ہے”میں نے اپنی طرف سے پہلے ہی صفائی پیش کر دی۔انہوں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور کہنے لگیں
” آپ لوگ کون سا دودھ استعمال کر رہے ہیں “
” پڑوس والے دیسی سٹور سے تازہ دودھ کاایک بڑا پیکٹ لائے تھے “
“یہ دودھ پینے کے لئے تو اچھا ہے، لیکن ہم لوگ چائے میں دوسرا دودھ ڈالتے ہیں۔پتر اوپر فرج سے آنٹی واسطے کھلا والا دودھ د ا ڈبا لے آئیں ” انہوں نے مڑ کر اپنے لڑکے سے پنجابی میں کہا۔
پتر کودتا ہوا گیا اورفوراً ہی دودھ کا ڈبا لے آیا
“آپ لو گ استعمال کر کے دیکھ لیں۔ میں اوپر سے ایک دو اور بھجوا دیتی ہوں انہوں نے ڈبا بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ” ہم لو گوں کو جب بھی سیل ملتی ہے، بہت سارے ڈبے ایک ساتھ اٹھا لیتے ہیں۔ پیسوں کی اچھی خاصی بچت ہو جاتی ہے”
مہمان کے جاتے ہی میں نے فوراً دوبارہ چائے بنائی، ڈبے والا دودھ ڈالا۔ ایک لمبا گھونٹ لیا تو چائے کا مزہ آ گیا۔ منہ جلنے کی کسے پرواہ تھی۔ تو گویا یہ چائے کا نہیں دودھ کا فسادتھا۔ دل سے دعا نکلی۔ اللہ ایسے پڑوسی سب کو دے۔
چائیے کے مزے کو دوبالا کرنے کے لئے میں نے اردو اخبا بھی اٹھا لیا۔کہنے کو تو یہ کینیڈین اخبار تھا لیکن لگ رہا تھا کوئی پاکستانی اخبار پڑھ رہا ہوں۔ ساری پاکستانی خبریں، کینیڈا سے متعلق ایک آدھ ہی خبر تھی۔ سارے کالم بھی وہی اور کالم نگاربھی وہی۔ اندازہ ہوا کہ مقامی طور پر چھپنے والے زیادہ تر اردو اخبار، پاکستانی اخباروں کی خبریں ہو بہو چھاپ دیتے ہیں بلکہ شائد فوٹو کاپی کر دیتے ہیں کیونکہ کالم نگاروں کی تصویروں کے خدو خال پہچانے ہی نہیں جا رہے تھے۔ صرف اشتہار مقامی تھے۔زیادہ تر اشتہاروں میں صاحبِ اشتہار خود بھی موجود تھے۔ چاہے وہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہوں، انشورنس ایجنٹ ہو ں، ہوٹل یا مٹھائی کی دکان کا اشتہا ر ہو، صاحب اشتہار کی دل ربا تصویر بھی موجودہے۔
کچھ اشتہار ایسے بھی تھے کہ لگتا نہیں تھا کہ ہم کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بیٹھے ہیں۔ سنیاسی بابا سے لے کر جادوٹونے تک کے اشتہارات۔ یہ بات صحیح ہے کہ اپنی قوم میں وضع داری بہت ہے۔ کسی ملک میں بھی رہیں عادت وا طوارنہیں بدلتے۔ یہاں آکر بھی اگر انداز وہی ہیں تو پھر یہاں آنے کا کیا فائدہ۔دل کچھ بجھ سا گیا۔ لیکن خود کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ بھئی مفت کے اخبار میں اور کیا لوگے۔ وسائل کم ہیں اس لئے ایسا ہو رہا ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ کمیونٹی میں کسی نے یہ کام توشروع کیا۔ کل کو انشاللہ منفرد اخبار بھی نکلیں گے
اوپر والی آنٹی (ہمارے بچوں نے مکان مالکن کے رخصت ہونے کے بعد انہیں یہی نام دیا) نے جاتے جاتے ہمیں پیش کش کی کہ وہ ہمیں دوسری صبح سوشل انشورنس کارڈ کے لئے سرکاری دفتر لے جاسکتی ہیں۔ خود انہیں دوپہر میں کام پر جانا ہوتا ہے،، اس لئے صبح سویرے ہمیں لے کر جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، ہم لوگوں نے فوراً حامی بھر لی۔حامی تو بھر لی لیکن صبح سویرے تیاری مسئلہ تھی۔ ایک انار سو بیمار۔ واش روم کے لئے ہی امیدواروں کی قطاربندھ گئی۔ گھر سے باہر نکلنے کے لئے بھی کافی تیاری کرنی پڑی۔ اب یہ وطنِ عزیز تو تھا نہیں کہ جوتے پہنے اورروانہ۔ یہاں سردی سے بچاؤ کے لئے مفلر، سوئٹر، جیکٹ، دستانے، اونی موزے اور بہت کچھ پہننا اوڑھنا پڑتا ہے۔ باہر نکلے تو آنٹی اپنی وین اچھی طرح گرم کر چکی تھیں۔ ا بھی اس سردی میں ٹیکسیوں سے جانا پڑتا تو آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل جاتا۔
“آپ سب لوگ سیٹ بیلٹ لگا لیں، بچو تم لوگ بھی۔ پولیس چیک کرتی رہتی ہے۔ اس علاقہ میں دو سکول بھی ہیں، اسلئے اور زیادہ سختی ہے” آنٹی نے مڑ کر بچوں کو ہدائت دی۔ہم لوگ سوشل انشورنس کارڈ کے دفترپہنچے۔ سامنے ہی بورڈ پر لکھا تھا
. ہیومین ریسورس ڈیولپمنٹ سنٹر.
ہیومین ریسورس کے الفاظ پڑھتے ہی مجھے ایک چینی کہاوت یاد آ گئی۔ کہتے ہیں کہ سال بھر کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگا ؤ، دس سال کی منصوبہ بندی ہے تو پھل دار درخت لگاؤ اور اگر سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو پھر ہیومین ریسورسز یعنی انسانی وسائل کو ترقی دئے بغیر کام نہیں چلے گا۔ یہ تو ہے چینی کہاوت، چلیں اب دیکھتے ہیں کہ کینیڈین حکومت نے انسانی وسائل کی ترقی کے لئے کیا کام کیا ہے؟
میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہاں صرف سوشل انشورنس کارڈ بنانے کا کام ہو گا جیسا کہ ہمارے یہاں شناختی کارد کے دفتر میں صرف شناختی کارڈ ہوتے ہیں۔یہ دفتر ایک بہت بڑے ہال پر مشتمل تھا، جس میں استقبالیہ کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے آفس نما کیبن تھے جن پر نمبرلکھے ہوئے تھے۔ آس پاس بہت سارے کمپیوٹر، پرنٹر اور ایک فیکس مشین بھی لگی ہوئی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ آپ یہاں سے نوکری کی تلاش میں بھی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹر، ٹیلی فون، فوٹو کاپی اور فیکس وغیرہ کی سہولتیں مفت حاصل ہے۔
میں نے استقبالیہ پر بتایا کہ ہم لوگ سوشل انشورنس کارڈ کے لئے آئے ہیں۔ استقبالیہ والوں نے میرا نام نوٹ کیا اور کہا “تھوڑی دیر میں آپ کا نام اور اور کاونٹر نمبر پکارا جائے گا۔ جب تک آپ لوگ انتظار گاہ میں سیٹوں پر تشریف رکھیں “
تقریباً دس منٹ بعد میرا نام پکار اگیا اور آفس نمبر تین میں جانے کو کہا گیا۔ وہاں ایک خاتون نے ہمارے کاغذات دیکھے گئے۔ کمپیوٹر میں ساری معلومات ٹائپ کیں
“یہ ہیں آپ لوگوں کے سوشل انشورنس نمبر” انہوں نے کچھ کاغذات پرنٹ کر کے ہماری طرف بڑھادئے۔
“آپ یہ نمبر آج ہی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ سوشل انشورنس کے کارڈ آپ لوگوں کو اگلے دو سے تین ہفتوں میں ڈاک سے مل جائیں گے۔ اگر تین ہفتے میں کارڈنہ ملیں تو ہم ان سے دوبارہ رجوع کریں “لیجئے صاحب ساری کاغذی کارروائی فقط آدھے گھنٹے میں ہوگئی۔ کوئی فالتو بکھیڑا نہیں
اب کے بعد بچوں کے سکول میں داخلہ کا مرحلہ تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ ایک پرائمری اور ایک سیکنڈری سکول بالکل ہمارے گھر کے پیچھے تھا۔ میں اور بیگم پہلے پرائمری سکول گئے۔ کافی بڑا سکول تھا۔ کشادہ کلاس روم، عمدہ فرنیچر، مہذب اساتذہ اور فیس کچھ نہیں کہ یہاں پبلک سکول میں تعلیم مفت ہے اور یہ سرکار کی ذمہ داری ہے۔ پتہ یہ چلا کہ گریڈ 8 تک کے بچوں کا داخلہ ان کی عمر کے حساب سے ہوتا ہے۔مثلاً 6 سال کا بچہ گریڈ 2 میں داخل ہوگا، 7 سال کا گریڈ 3 میں اور اسی طرح ہر ایک سال کے اضافہ کے ساتھ ایک گریڈ اوپر ملے گا۔ گریڈ 9 سے اوپر کے بچوں کا ٹیسٹ ہو گا۔ اس لحاظ سے چھوٹے کا داخلہ تو ایسے ہی ہو جائے گا، دونوں بڑوں کو ٹیسٹ کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔
کلاس ٹیچر نے سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا اور پھر ہمیں سکول اور تعلیم کے بارے میں بتایا۔ یہاں قانوناً۵ سے ۶۱ سال کی عمر تک سکول کی تعلیم لازمی ہے۔ بچہ سکول میں تعلیم اس وقت تک شروع نہیں کر سکتے جب تک وہ سکول کی بتائی ہوئی بیماریوں (ایسی بیماریاں جو ایک دوسرے کو لگ سکتی ہیں) کے ٹیکے نہیں لگوا لیتا۔ چونکہ ہم سب لوگ پاکستان سے چلنے سے پہلے تمام ٹیکے لگوا چکے تھے اور اس کے سرٹیفیکٹ بھی ہمار ے پاس موجود تھے اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور چھوٹے صاحب زادیے کوپہلی کلاس میں داخلہ مل گیا۔
وہ بچے جو انگلش میں کمزور ہوتے ہیں ان کے لئے انگلش کی علیحدہ ٹریننگ ہے جسے ای سی ایل یعنی انگلش بطور سیکنڈ لینگویج بھی کہتے ہیں۔ ہمارے صاحبزادے ذرا کم گو ہیں، انگلش تو کیا ان کو اردو گفتگو میں اچھا خاصہ وقت لگ جاتاہے۔ چنانچہ ان کو ای سی ایل میں بھی داخلہ دے دیا گیا۔
سکول نو بجے سے تین بجے تک اور پیر سے جمعہ تک ہے۔ جس دن بچہ بیمار ہو یا سکول نہ آ سکے سکول کو ضرور اطلا ع دیں۔ غیر نصابی سرگرمیاں یعنی کھیل وغیرہ سکول ختم ہونے بعد ہیں۔کبھی کبھار بچے کو سکول کے باہر والدین کی اجازت سے تعلیمی دورے پر لے جائیں گے اور اس کی اطلاع والدین کو بہت پہلے دے دیں گے۔ اس کے کچھ اخراجات والدین کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
خاتون نے اس بات پر بہت زیادہ زور دیا کہ ہم والدین کی میٹنگ میں ضرور آیا کریں اور اساتذہ سے بچے کے بارے میں مکمل تبادلہ خیال کیا کریں۔ اسکے علاوہ جب بھی ضرورت ہو یا مسئلہ ہو ضرور فون کریں۔سکول کی میٹنگ اورمختلف تقریبات میں والدین کی شرکت بہت مستحسن سمجھی جاتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ اس طرح سے والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں اساتذہ سے بات چیت کا موقع ملتا ہے اور اس کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کو زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
سکول میں جمنازیم،لائیبریری،آڈیٹوریم، کینٹین، کھیل کا میدان، لاکرز، اور پانی کے کولرز وغیرہ کی سہولیات تھیں۔ طلباء کے لئے بسوں کا خصوصی انتظام تھا۔ جو بچے سکول سے دور رہتے ہیں (تقریباً دو کلو میٹر) ان کو بسوں کی مفت سہولت تھی۔ ہم تو چونکہ سکول کے پیچھے ہی رہ رہے تھے اس لئے بس کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔
ہمیں ان خاتون کا تلفظ اور لہجہ سمجھنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی لیکن جس خلوص اور دل جمعی کے ساتھ وہ ایک ایک بات بتا رہی تھیں، ہم اس سے بہت متاثر ہوئے اور ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ہمارا بچہ یہاں عمدہ تعلیم حاصل کر ے گا اوریہی ہمارا کینیڈا آنے کا سب سے بڑا مقصد تھا۔
پرائمری سکول سے کام ختم کرنے کے بعد ہم لوگ گھر آ گئے۔ کھانا کھایا چائے پی اور بچوں کو لے کر سیکنڈری سکول کا رخ کیا۔ یہ سکول پرائمری سکول سے کہیں بڑا تھا اور بچوں کی تعدا دبھی اسی نسبت سے زیادہ تھی۔ اسکول کی لائبریری بہت اعلیٰ تھی۔
سکول کونسلر کی بات چیت سے یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے دونوں بچوں کو یہاں داخلہ تو مل جائے گا لیکن اس کے لئے داخلہ ٹیسٹ ہو گا جو کسی اور جگہ جا کردینا پڑے گا۔ ٹیسٹ کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ا س سردی میں بس سے کسی دوسرے جگہ جانا مسئلہ لگ رہا تھا۔ ہم لوگ ابھی تک یہاں کے محلِ وقوع سے بھی زیادہ واقف نہیں تھے۔ بہرحال ہم نے دوسرے سکول کا فون نمبر اور پتہ لے لیا۔ لیکن یہ طے تھا کہ بات دوسرے دن پر چلی گئی۔
دوسرے دن یہ اہم مسئلہ بھی مکان مالکن کی مدد سے حل ہو گیا اور دونوں بڑے بچے بھی سکول میں داخل ہو گئے۔ وہ بیچاری تو گھر واپس چلی گئیں کہ ان کو نوکری پرجاناتھا،ہم لوگ نزدیک کے شاپنگ مال میں ٹیلیفون کی دکان پر چلے گئے۔
ان لوگوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا۔(یہاں ہر جگہ کاغذی کارروائی خوب ہوتی ہے) د و سو ڈالرزرِ زضمانت کے لئے، چار ڈالر ماہانہ کرایہ کا نیاٹیلیفون سیٹ بھی پکڑا دیا اورساتھ ہی ٹیلیفون نمبر بھی الاٹ کر دیا۔ہم ٹیلیفون سیٹ لے جا کرلائن میں لگا دیں، اگلے چوبیس گھنٹے میں لائن کھل جائے گی۔ ہم حیران ہوئے کہ ماشاللہ وطنِ عزیز میں فون کی درخواست باپ دیتا ہے تو بچوں کے وقت میں نمبرآتا ہے۔ یہاں یہ کام کتنی تیزی سے ہو گیا۔ مان گئے کینیڈا کینیڈا ہے۔
آج کا دن بہت طویل اور تھکا دینے والا ثابت ہوا، لیکن ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ بہت سے اہم کام نبٹ گئے۔