ایک شاعر نے کہا ‘زندگی کے پرچے میں سب سوال مشکل ہیں،سب سوال لازم ہیں ‘
کچھ یہی حال ہم جیسے امیگرینٹ کا ہے۔سب سوال مشکل ہیں لیکن سب سوال لازم ہیں۔ روزی روزگار کے مسائل ہیں۔ بچوں کی تربیت کا مسئلہ ہے۔ وطنِ عزیز میں دوستوں رشتہ داروں کی شادی غمی ہے۔ سوچتے ہیں کہ ذرا فرصت ملے اور ہاتھ کی تنگی ختم ہو تو وطن کا چکر لگا آئیں۔ کریں تو کیا کریں؟
بعض دفعہ لگتا ہے کہ سوچ میں ٹھیراؤ، کوئی سمت اورکوئی تسلسل نہیں ہے۔ سوچتے ہیں، خود سے سوال کرتے ہیں، خود ہی جواب دیتے ہیں، اطمینان ہو یا نہ ہو۔ پھر کسی دوسرے مسئلہ کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ خیالات رکنے لگتے ہیں، ذہن الجھنے لگتا ہے تو سوچ کی پٹاری بند کر دیتے ہیں، تا وقتیکہ کہ یہ دوبارہ نہ کھل جائے۔
ہم سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ محبت کرنے والے لوگ، دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک بڑا حلقہ، جانے پہچانے لوگ، مانوس شہر۔ غرضیکہ ایک پورا ماضی جو پیچھے رہ گیا ہے۔
ایک اچھی نوکری اور کامیاب مستقبل، ریٹائرمنٹ کا بعد کا پیکج اور پینشن،وہ چھت جو اپنی تھی جس پر کوئی قرضہ تھا۔ تمام آسائشیں اور گھر کاآرام۔
کینیڈا ہمارے لئے نئی سرزمین ہے۔ ہر چیز نئی اور نا آشنا۔ نہ لوگوں سے واقفیت ہے اور نہ سوسائٹی سیشناسائی۔ جہاں جاتے ہیں ہر چیز اجنبی سی لگتی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتازندگی کہاں سے شروع کریں؟ وقت کے بہاؤ کے ساتھ کچھ کچھ قدم جمنے شروع ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی ہر چیز غیر یقینی سی لگتی ہے۔ بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ ہم مسافرت میں ہیں اور کسی وقت واپس چلے جانا ہے۔
ہم کہنے کو تو کینیڈا آ گئے ہیں لیکن ذہن میں انتشار سا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط؟یہ وہ ملک تو نہیں لگ رہا جس کے ہم خواب دیکھتے تھے۔ جگہ جگہ تہذیب کا ٹکراؤ ہے۔ ہم اس معاشرے میں رچنا بسنا بھی چاہتے ہیں اور اس سے ڈرتے بھی ہیں۔ جب ہم خود ہی اپنی سوچ میں واضح نہیں ہیں تو ہم اپنی اولاد کی کیا رہنمائی کر سکتے ہیں۔ عجیب صورتِ حال ہے۔
یوں تو کینیڈین اچھے لوگ ہیں۔ خوش اخلاق۔ ملنسار اور ہمہ وقت مدد کے لئے تیار لیکن بقول شاعر
فاصلہ فاصلہ کہلاتا ہے
ٹی وی کھولتاہوں تو اجنبی چہر ے، خبریں سنتا ہوں تو بہت کم خبروں کے پس منظر سے واقفیت لگتی ہے۔ سیاست، سیاست دان، حکومت سب اجنبی۔
کن مسائل پر گفتگو ہو رہی ہے سیاسی پارٹیاں کیا کر رہی ہیں، حکومت کیا کر رہی ہے؟ حکومت صحیح کر رہی ہے؟ غلط کررہی ہے۔ اس میں ہم جیسے امیگرنیٹ کے لئے کیا ہے؟ کچھ اندازہ نہیں ہوتا وطنِ عزیز میں تو یہ حال تھا کہ اخبار پڑھے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ یہاں اخبار دیکھنے کو طبیعت نہیں چاہتی۔
یہاں کے لوگ کھیل کود کے بہت شوقین ہیں، لیکن انکے کھیل ہم سے مختلف ہیں۔ آئس ہاکی، بیس بال، والی بال اور انکے دیگر کھیلوں میں کوشش کے باوجود دل نہیں لگتا۔ جہاں کھیلوں کا ذکر چل رہا ہو، لوگ زور شور سے کھلاڑیوں کی تعریف میں رطب السان ہوں، گفتگو ہمارے سر پر سے گزر رہی ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں تک کو نہیں پہچانتے، گفتگو کیا کریں گے۔
ہر بات میں مسئلہ، ہر کام میں مسئلہ۔ کس کام کے لئے کس کے پاس جانا ہے؟ کون محکمہ کیا کر رہا ہے؟ حالانکہ سرکار نے بہت اطلاعات فراہم کی ہیں، اشتہاری پرچے(فلائر)ہیں، کونسلنگ ہے، ہر ایک کی ویب سائٹ موجود ہے۔ قاعدے قوانین ہیں، کاغذی کارروائی ہے۔ جہاں جائیں لمبے لمبے فارم ہیں۔ سب کچھ ہے، لیکن رشوت نہیں ہے۔ اگر کام صحیح ہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر قاعدے قانون سے باہر ہے تو کوئی کرو ا نہیں سکتا۔
بچوں کے سکول جانے سے تعلیمی سسٹم کا کچھ اندازہ ہونے لگا ہے۔ گھر پر ایک مقامی انگریزی روزنامہ لگوا لیا ہے۔ اسکی خبروں، اداریہ اور لوگوں کے مراسلات سے مقامی حالات کااندازہ ہونے لگا ہے۔
ہم پہلی نسل کے امیگرینٹ ہیں اسلئے بہرحال ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو راستہ دکھا کر جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ نسل خود کو گم شدہ نسل یعنی محسوس کرے۔ ویسے سچ پوچھئے تو ہم بعض اوقات خود کو ہی گمشدہ نسل محسوس کرتے ہیں
کینیڈا میں آئے ہوئے تقریباً ایک سال ہو گیا ہے اور یہ سارا وقت جدوجہد میں ہی گزرا ہے۔ جو ڈگریا ں اور تجربہ بڑے فخر سے ساتھ لائے تھے اس کی یہاں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اول تو کوئی انٹرویو تک کے لئے نہیں بلاتا اور اگر بلاتا بھی ہے تو بات کینڈین تجربے پر آ کر رک جاتی ہے۔ کینیڈین تجربہ کہا ں سے لائیں؟ بھئی جب نوکری دو گے جب ہی تو مقامی تجربہ ہو گا۔ جو تجربہ ہماے پاس ہے اسے تم گردانتے نہیں۔
عجیب لوگ ہیں۔
اب تو میں نے اپنے ریزیومے میں منیجر اور 15 سال کا تجربہ،کون کون سے سیمینارمیں کانفرنسں شرکت کی وغیرہ وغیرہ، بھی لکھنا چھوڑ دیا ہے۔
مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ میرے حساب سے میری شخصیت میں جو اچھی باتیں تھیں ان میں سے کچھ تو یہاں بالکل بے کار ہیں، جن باتوں کی یہاں ضرورت ہے وہ مجھ میں نہیں ہیں۔ میری شخصیت آہستہ آہستہ پارہ پارہ ہوتی جارہی ہے۔مجھے تو کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ میں ہوا میں معلق ہوں۔
میں ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا اور پرانے اخبار ات کی بے مقصد ورق گردانی بھی کرتا جا رہا تھا کہ ایک تحریر نے میری توجہ اپنی طرف کھینچی۔ یہ کسی مجھ جیسے پیشہ ور امیگرینٹٹ کی مختصر آپ بیتی تھی، لیکن بہت مثبت انداز میں لکھی گئی تھی۔
” میں پیشہ کے اعتبار سے ایک اکاؤنٹنٹ ہوں۔ کینیڈا آنے کے بعد مجھے ایک بیسمنٹ کرایہ پر حاصل کرنے اور ابتدائی انتظامات کرنے میں مشکل سے ایک ہفتہ لگا۔ میری بیوی نے کچن، بچے اور گھر داری سنبھال لی اور میں دوسرے ہفتہ ایک فیکٹری میں جاب کررہا تھا۔
چھ مہینے تک میں نے دن رات کام کیا۔ میرے لئے میرا ماضی ایک تاریخ تھا، جب کہ حال میرے لئے ایک حقیقت تھا۔ چھ مہینے کے بعد میں اس پوزیشن میں آ گیا کہ میں گاڑی خرید سکوں۔ گاڑی کی وجہ سے کام پر آنے جانے میں میرا خاصا وقت بچنے لگا، لوگوں سے میل ملاقات میں آسانی ہو گئی اور مقامی مسجد تک پہنچنے میں بھی سہولت ہو گئی۔
اس چھ مہینے کی مدت نے مجھے عارضی ملازمت ڈھونڈنے کے طریقے اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے میں اچھی خاصی معلومات فراہم کر دیں۔اب مجھ میں اتنا اعتماد پیدا ہوگیا تھا کہ میں اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق عارضی ملازمت آسانی سے حاصل کر سکتا تھا۔
اسکی واحد وجہ یہ تھی کہ میں نے ہر قسم کی ایمپلائمنٹ ایجنسی کے چکر لگائے تھے، لوگوں سے ملا تھا، فیکٹریوں اور وئیر ہا ؤس میں کام کیا تھا، گھروں میں اخبار اور فلائر تقسیم کئے تھے، شاپنگ مالز میں کام کیاتھا، ٹیلی مارکیٹنگ کی تھی اور نہ جانے کیا کیا؟ ان کاموں کی وجہ سے مجھے اپنے افسرانہ مزاج پر قابو پانے میں بھی بہت مدد ملی۔ یہ افسرانہ مزاج غالباًمجھ میں پاکستان میں رہتے ہوئے اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کا سر براہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا۔
کچھ عرصے کے بعد میں نے ایک ایسی نوکری پکڑ لی جس میں مجھے چار روز دس دس گھنٹے کام کرنا تھا اور پانچویں دن چھٹی تھی۔ میں نے یہ پانچواں دن اپنے سماجی تعلقات کو بڑھانے اور لوگوں سے ملنے ملانے کے لئے مختص کر دیا تھا۔
سال بھر کے بعد میں نے ایک پروفیشنل کورس میں داخلہ لے لیا۔ ہفتہ کے دن کالج جانے لگا، اور اپنی فیملی کو بھی زیادہ وقت دینے لگا۔کالج کی تعلیم نے میری پیشہ ورانہ معلومات میں بہت اضافہ کیا۔
میر ی بیوی نے بھی ایک ایسی جز وقتی ملازمت پکڑ لی جس کے اوقات کار بچوں کی مصروفیات سے متصادم نہیں تھے۔
دو سال کے بعد مجھے ایک ایسی ملازمت کی پیشکش ہوئی جو کسی حد تک میرے پیشے سے متعلق تھی،لیکن آمدنی اس سے کم تھی جو میں دیگر عارضی ملازمتوں سے کما لیاکرتاتھا۔آمدنی میں کمی کے باوجود میں نے اسی ملازمت کو ترجیح دی اور اس سے منسلک ہو گیا، جس کا فائدہ مجھے بعد میں ہوا۔ میرے ریزیومے پر یہ ملازمت کینیڈین تجربے کے زمرے میں آئی اور اس نے مجھے اپنے پیشے میں آگے بڑھنے میں مدد دی۔
تیسرا سال ہمارے لئے نسبتاً آسودگی اور استحکام لایا۔ اب ہمارے پاس اتنے پیسے تھے کہ ہم یا تو اپنا مکان خریدنے کے لئے پیشگی رقم ادا کر دیں، یا اپنے عزیزوں سے ملنے پاکستان چلے جائیں۔ ہم نے یہ طے کیا کہ ہم پاکستان چلے چلتے ہیں۔ ایسا کیا ہے مزید کچھ عرصے بیسمنٹ میں رہ لیں گے۔ آپ یقین کر یں کہ ہمارا پاکستان کا دورہ اتنا اطمینان بخش تھا کہ ہم یہاں کی ساری مشکلات اور سخت محنت کو بھول گئے۔ ہمارے بچے خوش، ہم خوش، ہمارے والدین، بھائی بہن اور رشتہ دار خوش تھے۔ ہمارے بچے اپنے تمام رشتہ داروں سے ملے، اپنے ہم عمر کزنز وغیرہ سے ملے، وہاں کے ادب وآداب سے دوبارہ آشنا ہوئے اور تمام بھولے بسرے رشتے استوار ہوئے۔ ہمارے بچے اب کینیڈا آنے کے بعد بھی ان تمام لوگوں سے رابطہ میں ہیں۔ اب انہیں اس بات کا زیادہ بہتر ادراک ہے کہ ان کی جڑیں کہاں ہیں اور انکے لئے پاکستان میں کیا ہے؟
ہمارااب یہاں چوتھاسال ہے۔ میر ی بیگم پڑھ رہی ہیں۔ اب ہم اپنا زیادہ وقت اپنی پڑھائی اور بچوں کو دے رہے ہیں۔ ہمارے مخلص دوستوں کا ایک اچھا خاصا حلقہ ہے، جس میں ہم سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ میں ان تمام لوگوں کا ازحد مشکور ہوں، جن لوگوں نے ہمارے آڑے وقتوں میں مدد کی۔ ہماری بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہم بھی دوسروں کے ساتھ ہی ایسا کریں۔
میں سخت محنت میں یقین رکھتا ہوں، کسی کو دوش دیناپسند نہیں کرتا، اپنے دین اور اپنے ملنے والوں پر پورا بھروسا کرتا ہوں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ اگر آپ کینیڈا میں خوش نہیں ہیں، تو آپ یہاں کے سسٹم سے لڑنے میں اور لوگوں کو یہ بتانے میں توانائی صرف نہ کریں کہ آپ اپنے ملک میں بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے۔
صاف اور سچی بات یہ ہے کہ آپ کو یہاں آنے کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی آپ کو یہاں رکنے کے لئے مجبور کر رہا ہے۔آپ دوسری فلائٹ پکڑ لیں اور وہاں واپس چلے جائیں جہاں آپ زیادہ آسودہ ہیں، لیکن یہاں رہ کر ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش نہ کریں جو بہت محنت اور خلوص سے یہاں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آپ بیک وقت دو کشتیوں میں سوار نہیں ہو سکتے، آپ ایک کشتی کا انتخاب کر لیں، ورنہ نتائج آپ کے لئے غیر متوقع ہوسکتے ہیں۔پسند آپ کی اپنی ہے۔ اگر میری صاف گوئی سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو میں اس کے لئے پیشگی معافی کا خواستگار ہوں۔ یہ میری کہانی ہے۔ آپ بھی اپنی کہانی بیان کر سکتے ہیں، اور اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
فقط ایک امیگرینٹ۔ نارتھ یارک”
جیسے جیسے میں کہانی پڑھ رہا تھا، میں خود میں ایک طرح کی نئی توانائی اور امنگ محسوس کر رہا تھا۔
تحریر کے اختتام تک میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اب جب ہم کشتیاں جلا کر آ ہی گئے ہیں تو آر یا پار۔ خود پر ترس کھانے اور کم ہمتی دکھانے سے کچھ بھی ہونے کا نہیں۔ اللہ پر بھروسا کر اور اپنی پوری کوشش کر۔
میں نے اسی وقت وضو کیا اور دو رکعت نفل نماز پڑھی اور پروردگار سے مدد کی درخواست کی۔ جاء نماز لپیٹ کر ا ٹھا تومیں خود میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ محسوس کر رہا تھا۔
امیگرینٹ کی تحریر سے مجھ میں اچھا خاصا جوش اور ولولہ پید اہوگیااور میں نے گزشتہ حالات کاجائزہ لینا شروع کیا میں نے فیکٹریوں میں کام کیا۔ اس میں جسمانی محنت ہے اور عمر کے اس حصے میں یہ کام اپنے بس کی بات نہیں۔
کیا کوئی کاروبارکر لیں؟ اس سلسلے میں بھی کوئی حوصلہ افزاء صورتِ حال نظر نہیں آئی۔ اس سلسلے میں کئے جانے والے سروے بتاتے ہیں کہ 90 فی صدنئے کاروبار ناکامی سے دو چار ہوتے ہیں اور کاروبار شروع کرنے والے خود کو ‘ دیوالیہ’ قرار دینے، متعلقہ بینکوں اور سرکاری اداروں کی کارروائی کے بعد ہی اس سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
زیاد ہ تر امیگرینٹس نے ڈالر سٹور یا اسی طرح کے کاروبار میں ہاتھ ڈالا تھا۔ کچھ نے فرنچائز بزنس بھی خریدے تھے لیکن بہت کم لوگ کامیاب ہو سکے۔ا سطرح کے بزنس میں پورے گھرانے کو ساتھ لگنا پڑتا ہے، اپنی ذاتی، گھریلو اور سماجی زندگی داؤ پر لگانی پڑتی ہے، جب جا کر بمشکل تمام کچھ آمدنی کی شکل نظر آتی ہے۔ میرے لئے یہ سب کچھ کرنا بہت آسان نہیں تھا۔
انجینئرنگ کے پیشے میں گھسنے کے لئے لائسنس ضروری ہے۔ اس میں کتنا عرصہ لگے گا؟ سال دو سال یا اس سے زیادہ؟ اتنے عرصے گھر کیسے چلے گا؟ خرچہ کہاں سے آئے گا؟
اب مزید کیا کیا جا سکتا ہے؟ کوئی دوسرااور آسان پیشہ اختیار کر لوں؟
کیا کسی کورس میں داخلہ لے لوں؟دوبارہ پڑھائی شروع کر دوں، اس سے ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ بات تو معقول ہے لیکن اس وقت گھر کے خرچے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ پڑھائی کے لئے فیس کہاں سے آئے گی؟ چلیں کوشش کر یں شائد کوئی یونیورسٹی وظیفہ دے دے۔کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔ نوکری کی تلاش تو چل ہی رہی ہے۔
اسی سوچ کیساتھ اخبارات کی ورق گردانی،لائبریری اور انٹرینٹ سے معلومات اکٹھا کرنے کا سوچا۔تھوڑی سی کھوج کے بعد اندازہ ہوا کہ مقامی تعلیمی ادارے ایک ہزار سے زیادہ سرٹیفیکٹ، ڈپلوما اور ڈگری کورسز پڑھا رہے ہیں جن کا دورانیہ چند ہفتوں سے لے کر دو تین سالوں تک محیط ہے۔ مجھے کچھ کورسز منفرد بھی نظر آئے مثلاً
تجہیز وتکفین کا کورس۔ اس کورس کا دورانیہ بھی کئی ہفتوں پر محیط تھا اور اس کی باقاعدہ سوفٹ وئیر ٹریننگ تھی۔ کیا بات ہے؟ ہمارے یہاں تو …….. خیر جانے دیں!
دوسرے دن میں ایک ا خبار کی ورق گردانی کررہا تھا۔ ا س میں کئی کورسز کے اشتہارات تھے مگرجس چیز نے میری توجہ کھینچی وہ انٹرنیٹ مینجمنٹ اور ویب دیزائننگ کا ایک سالہ کورس کا اشتہار تھا۔
یونیورسٹی کی ڈگری ہونی چاہئے اور دو سال کا تجربہ۔ قرضے کی سہولت بھی موجود ہے۔
لکھا تھا ہم آپ سے صرف ایک ٹیلیفون کے فاصلے پر ہیں اورآپ کو ایک نیا مستقبل دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ نیا مستقبل؟ بھائی اگر تم صرف ہمارا حال ٹھیک کرنے میں ہی کچھ مدد کر دو تو بہت ہمارے لئے یہی بڑی بات ہوگی۔
دو سال کا تجربہ؟ اگر بات کینیڈین تجربے کی ہو رہی ہے تو پھر توکچھ بھی نہیں ہو سکتا۔میں سوچ میں پڑگیا۔ کیا کروں؟
کورس کی تفصیلات دیکھیں۔ اس میں بہت کچھ پڑھا رہے تھے۔ بہت سی چیزیں بالکل نئی تھیں اور مارکیٹ کے حساب سے تھیں۔نوکری ملنے کی زیادہ امید دکھائی دے رہی تھی۔
قرضے کی سہولت سے ان کا کیا مطلب ہے؟ گھر چلانے کی بھی بات ہو رہی ہے یا صرف ٹیوشن فیس پکڑا دیں گے؟ قرضہ دینے کے لئے کیا شرائط ہوں؟ کوئی ضمانت مانگیں گے؟ اپنے سوالوں سے خود ہی گھبرا کر میں نے دل میں کہا کہ ایسے کچھ نہ ہو گا، کالج والوں کو فون کرلو، کوئی وہ گھر سے آ کر پکڑ تو نہیں لے جائیں گے۔ چنانچہ مزید کچھ سوچے بغیر میں نے کالج کا نمبر گھما دیا۔
استقبالیہ کلرک سے میں نے داخلہ کا پوچھا تو اس نے متعلقہ کونسلر سے ملا دیا۔ کونسلرنے مجھ سے میری تعلیم، کینیڈا میں سٹیٹس، قیام کی مدت، اور کس کورس میں داخلہ لینا ہے وغیرہ وغیرہ جیسے کئی سولات کئے۔
کونسلر نے کہا کہ میں بظاہر تو میں داخلہ کا اہل ہوں ٹسٹ اور انٹرویو کے لئے کب آسکتا ہوں؟
میں نے دوسرے دن دس بجے ٹسٹ اور انٹرویو کا وقت لے لیا۔
بیگم کو میں نے مختصراً صورتِ حال بتا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ زیادہ پر امید نہ ہو جب تک میری کالج والوں سے بات نہ ہو۔ پتہ نہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔
صبح ہوئی تو میں نے کوٹ ٹائی نکالی، اللہ کا نام لے کر تیار ہوا اور گھر سے نکل پڑا۔کچھ دیر بس کا انتظار کرنا پڑا، پھر بھی آدھے گھنٹے میں کالج پہنچ گیا۔ کالج کے استقبالیہ پر اطلاع دے کر اپنی باری کے انتظا رمیں بیٹھ گیا اور وقت گزارنے کے لئے سامنے پڑی ہوئی میزپر کالج کے فلائر اور کتابچہ دیکھنے لگا جس میں مختلف کورسز کی تفصیلات تھیں۔
میں کتابچوں کی ورق گردانی کر ہی رہا تھا کہ استقبالیہ سے میرا نام پکارا گیا اور مجھے برابر والے کمرہ میں جانے کو کہا گیاجہاں کورس ڈائریکٹر صاحب موجود تھے۔ انہوں نے بڑی خوشدلی سے میرا استقبال کیا۔ میرے تعلیمی سرٹیفیکٹ اور دیگر کاغذات کا تفصیلی جائزہ لیا۔پھر کہا کہ میرا تعلیم اور تجربہ کافی ہے داخلہ مل سکتا ہے، میں فارم بھر کر جمع کر دوں لیکن پھر بھی مجھے میرٹ لسٹ کا انتظار کرا ہو گا۔
کل وقتی طالب علم کے طور پر اندراج ہو گا۔ کورس کی مدت ایک سال ہے، جس میں دس مہینے کلاس روم ٹریننگ اور دوماہ کی عملی ٹریننگ ہو گی جس کا بندوبست خودکالج کرے گا۔
قرضے کی سہولت کے بارے میں اس نے بتایا کہ اسے OSAP کہتے ہیں۔ قرضے کی یہ سکیم حکومت کی اپنی سکیم ہے اور اسکے لئے طالب علم کا صوبہ انٹاریو میں ایک سال کا قیام ضروری ہے۔ واپسی کی شرائط کافی آسان ہیں کہ اس قرضہ کو پندرہ سے بیس سال کی مدت میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ بے روزگار افراد یا کم آمدنی والے لوگوں کو سرکار کی طرف سے مزید سہولتیں بھی میسر ہیں۔
داخلہ فارم زیادہ پیچیدہ نہیں تھا اور سکے ساتھ جمع کرنے والے کاغذات کی تمام کاپیاں میرے پاس تھیں، لہٰذا داخلہ فارم جمع کرانے کا مرحلہ تو آسانی سے نبٹ گیا لیکن قرضہکے فارم پر آکر گاڑی اٹک گئی کیونکہ اس میں بنک اکاوئنٹ کی تفصیلات مانگی تھیں۔ میں نے گھر فون کر کے یہ تفصیلات لیں
ایک ہفتہ کے بعد میں نے کالج کا چکر لگایا تو نوٹس بورڈ پر داخلہ کے نوٹس میں میرا نام موجود تھا۔ نوٹس بورڈ پر ٹائم ٹیبل لگا تھا اور ساتھ ہی کتابوں کی فہرست بھی تھی۔ہفتہ کے پانچوں دن صبح نو بجے سے ڈیڑھ بجے تک کی کلاسز تھیں بیچ میں آدھے گھنٹہ کا بریک تھا۔ اس طرح روزانہ چار گھنٹے کی کلاس کے ساتھ ہفتے میں بیس گھنٹے کی کلاسز تھیں اور یہی کل وقتی سٹوڈنٹ ہونے کے لئے چاہئے تھا۔
ٹائم ٹیبل سامنے آنے کے بعد ایک دم سے اس کورس میں میری دلچسپی بڑھ گئی اور میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ میرے پروردگار نے اگر ایک راستہ دکھایا ہے تو مجھے اس موقعہ سے پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہو سکتا میرے اوپر روزی اور روزگار کے دروازے اسی طرح کھلنے کو لکھا ہو۔ اس کی حکمت وہی جانے۔
نوٹس بورڈ پر طلباء کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ جتنے جلدی ممکن ہو کالج کی دکان سے کتابیں خرید لیں اور اپنے آئی ڈی کارڈکے لئے استقبالیہ کاوئنٹر سے رجوع کریں۔
میرے لئے اس وقت کتابوں کی خریداری ایک مسئلہ تھی کہ کتابوں کی قیمت بورڈ پر تقریباً پانچ سو ڈالر لکھی تھی اور میرے بجٹ میں اس کی قطعی گنجائش نہ تھی۔ مجھے اپنے حوصلہ پست ہوتے ہوئے معلوم ہوئے اور وقتی طور پر پیدا ہونے والاجوش ٹھنڈا ہونے لگا۔ میں دوبارہ کتابوں کی فہرت کا جائزہ لینے لگا تو مجھے اس میں نیچے ایک نوٹ لکھا نظر آیا کہ
OSAP
کی درخواست دینے والے لوگ (یعنی مجھ جیسے لوگ) قیمت کی ادائیگی بعد میں کرسکتے ہیں۔مجھے کالج کی انتظامیہ پر پیار آنے لگا اور حوصلے دوبارہ جوان ہونے لگے۔
میں نے فوراً کتابوں کی دکان کا رخ کیا، اپنے داخلہ کی رسید دکھائی اور پانچ منٹ میں میرے کورس کا پورا تھیلا میرے ہاتھ میں تھا۔ اسکی فوراً بعد میں استقبالیہ کا رخ کیا۔ وہاں کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون نیخود کار کیمرہ سے میری تصویر لی اور کہا کہ پیر کو جب کالج ائیں تو یہاں سے اپنا شناختی کارڈلے لیں۔
لیجئے صاحب ہم اب کینیڈین درسگاہ کے باقاعدہ طالب علم بن گئے۔ پتہ نہیں اب اس عمر میں پڑھائی ہو بھی سکے گی یا نہیں۔ یونیورسٹی سے نکلے ایک مدت ہو گئی، بڈھے طوطے ویسے بھی بہت بدنام ہیں۔
کالج بہت طویل و عریض رقبہ پر پھیلا ہوا ٹھا۔ بے شمار بلڈنگ بلاکس تھے جو اندر اہی اندر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ کچھ بلاکس تین منزلہ بھی نظر آرہے تھے۔
کاؤ نٹر پر سے مجھے کالج کا ایک نقشہ بھی دیا گیا تھا اور ہدایات تھیں کہ اس نقشہ کے مطابق طالب علم کالج کا خود سے ایک چکر لگا لیں اگر کچھ مشکل پیش آرہی ہو تو کسی رضاکار سے رجوع کریں۔
رضاکاروں نے ایک لال رنگ کی پیٹی باندھ رکھی تھی جس پر موٹے موٹے الفاظ میں ” والنٹیئر” لکھا ہوا تھا۔ میں نے نقشہ کے مطابق خود ہی اطراف کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ یہاں تو پوری ایک دنیا تھی۔کمپیوٹر روم، لائبریری، سٹوڈنٹ روم، کافی کلب، وینڈنگ مشینز، فوٹو کاپی روم، بر گرز شاپ، لاکرز، گیمز روم، ریڈنگ رومز، کارپارکنگ کی بکنگ کہاں سے ہوگی؟ لاکر کی چابی کہاں سے ملے گی، شکایت کہاں درج ہونگی؟ انتظامیہ کے دفاتر، اساتذہ کے دفاتر اورملٹی فیتھ روم۔
یہ ملٹی فیتھ روم کیا ہے؟ مجھے ذرا کھوج ہوئی۔ میرے حساب سے کثیرالعقیدوں کا کمرہ
ایک رضا کار سے پوچھا تو وہ مسکرایا
کہنے لگا “کیا تم مسلم ہو؟ “
ہم نے کہا “ہاں “
لیکن مجھے اسکے سوال پر بہت حیرت ہوئی۔
وہ میری حیرت تاڑ گیا۔ کہنے لگا
” اس کمرے میں زیادہ تر مسلم ہی جاتے ہیں اور تو شاید ہی کبھی اس کمرہ کا رخ کرتا ہو”
اس نے مجھے پتہ سمجھا دیا۔ انٹر فیتھ روم ڈھونڈ کر اندر جا کر دیکھا تو اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا۔اس کمرہ میں کسی بھی مذہب اور کسی بھی فرقہ کا شخص اپنے طور پر عبادت کر سکتا ہے۔
میں نے ایک کونہ میں جاء نمازیں بھی دیکھیں اور ایک الماری میں کچھ اسلامی کتابیں بھی نظر آئیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دل کو بہت طمانیت ہوئی اور کالج والوں کے لئے دل سے کلمہ خیر نکلا۔ انہوں نے تو اپنا کام کر دیا اب ہم عبادت کریں یا نہ کریں۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کلاس میں مجھ سمیت کل 24 طلباء تھے، اور آدھی سے زیادہ کلاس مجھ جیسے بڈھے طوطوں پر مشتمل تھی۔ تقریباً ہر عمر اور ہر نسل کے طوطے۔ زیادہ تر امیگرینٹ تھے۔ خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔
ہرطالب،علم کے لئے ایک کمپیوٹر تھا۔ آپ کسی بھی کمپیوٹر پر بیٹھ کر کالج کی طرف سے دئے ہوئے مخصوص پاس ورڈ کے ساتھ اپنے کورس کی ویب سائٹ میں داخل ہو سکتے تھے۔
پہلی کلاس میں ٹیچر نے سب سے اپنا مختصر تعارف کرانے کو کہا۔ تعارف شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ اس میں کافی لوگ اپنے میدان میں بہت مہارت رکھتے تھے، لیکن زبان کی مشکلات، کمییوٹر کی مہارت میں کمی یا کینیڈین تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد دوبارہ پڑھائی کا رخ کرر ہے ہیں۔
میری باری آ ئی تو میں نے اپنا بہت مختصر سا تعارف پیش کیا۔زیادہ بولنا بھی اچھا نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں آگے چل کر کیا صورتِ حال ہو۔ انسان میں انکساری بھی ہونی چاہئے۔ کالج کی پڑھائی میرے گمان سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہی تھی۔ روزانہ چار گھنٹے کی کلا س پھر ہوم ورک۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ ہفتہ کب شروع ہوا،اور کب تمام ہوا۔ اپنی مہارت توکورس شروع ہونے کے پہلے ہی دن ختم ہو گئی تھی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے ایک دو ساتھیوں کا انہوں نے نے میری بہت رہنمائی کی۔
مجھے کالج جاتے ہوئے تین ہفتے ہوئے توایک دن دیکھا کہ دو تین جگہوں پر اطلاعات لگی تھیں کہ قرضیے کے امیدوار رابطہ کریں۔اسوقت توموقع نہیں تھا اسلئے میں اپنی کلاس ختم کرنے کے بعددفتر پہنچ گیا اور نمبر ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ مجھ جیسے کافی طلباء تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹہ کے بعد میرا نمبر آیا۔ کونسلر نے میرا سٹوڈنٹ کارڈ مانگا،فائل میں سے میری قرضہ کی درخواست نکالی اور کہنے لگی
” آپ کی درخواست منظور ہو گئی ہے اور اب آپ کو بقیہ کاروائی کے لئے اپنے بینک کی شاخ سے رابطہ کرنا ہو گا”
یہ کیساملک ہے بھائی۔ قرضے اور وہ بھی طلباء کے، اتنی آسانی سے منظور ہو جاتے ہیں؟
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ چونکہ یہ کل وقتی کورس ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا ہے کہ آپ پڑھائی کے ساتھ نوکری کے متحمل نہیں ہو سکتے، آپ کو اس دوران گھر چلانے کے اخراجات بھی قرضہ میں شامل ہیں۔ آپ کو یہ کورس پاس کرناہے، فیل ہونے کی صورت میں آپ سے مکمل رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ سرکار نے آپ کو یکسوئی سے پڑھائی کے لئے تمام سہولیات مہیا کی ہیں، آپ کو ایمانداری سے پڑھنا ہے اور پاس ہونا ہے، ورنہ پیسے واپس۔ ہم نے دل میں سوچا کہ ہم جس ملک سے آئے ہیں وہاں قرضہ لے کر واپس کرنے کی کچھ ایسی قابلِ رشک روایات نہیں ہیں۔ جب واپسی کا وقت آئے گا تو دیکھا جائیگا۔
میں دوسرے دن کالج ختم کرنے کے بعد بینک پہنچ گیا۔ بینک والوں نے کاغذات دیکھے، اکاؤنٹ نمبر اور گھر کے پتے کی تصدیق کی، کاغذات پر ہمارے دستخط کرائے، دو کاپیاں اپنے پاس رکھیں اور ایک کاپی ہمیں واپس کر دی۔
میرا خیال تھا کہ کالج کی فیس، کتابوں،دیگر ضروری اخراجات اور بلوں کی ادائیگی کے بعد قرضہ میں سے جو رقم بچ رہی تھی اس سے فوری طور پرگاڑی خرید لینی چاہئے۔ اس وقت جو ہم بسوں اورآمدو رفت کے حساب میں جوڈھائی تین سو ڈالرخرچ کر رہے اتنے ہی میں گاڑی کا پیٹرول(یہاں کی زبان میں گیس)، انشورنس اور چھوٹی موٹی مرمت کے اخراجات نکل جائیں گے اور بغیر گاڑی کے جو بسوں میں وقت برباد ہوتا ہے وہ بچ جائگا، گروسری وغیرہ لانے میں جو قباحتیں ہیں وہ دور ہو جائیں گی۔ لوگوں سے میل ملاقات ہو سکے گی۔ فی الحال تو ہم لوگ گھر میں (گھر کیا بیسمنٹ) بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ گاڑی خرید لیں تو چھوٹے صاحبزادے کو مدرسے میں داخل کرائیں۔ پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو گیا ہے۔
گاڑی خریدنا اور ہم جیسے امیگرینٹ کے لئے، جس کا بجٹ بھی محدود ہو اور مارکیٹ کی معلومات بھی نہ ہوں، ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اخبار کھنگالے تو پتہ چلا کہ ہر طرح کی ہر قیمت کی گاڑیانں برائے فروخت ہیں لیکن جو بات سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ تھی کہ کچھ گاڑیاں ‘جہاں ہیں اور جیسی ہیں ‘ کی بنیاد پر برائے فروخت تھیں، ان کی قیمت کم تھی۔نسبتاًگاڑیوں میں سیفٹی اور ماحولیاتی (امیشن) ٹسٹ شامل تھا۔ یہ سیفٹی اور امیشن ٹیسٹ کا کیا ڈرامہ ہے، جن کی وجہ سے قیمت اوپر چلی جاتی ہے؟
بڑے صاحب زادے فوراً متحرک ہو گئے۔ اس سلسلے میں ان کی معلومات بھی تھیں اور بذاتِ خود فوری طور پر وہ ڈرائیونگ لائسنس کے امیدوار بھی تھے۔
سیفٹی کی بات تو فوراً ہی صاف ہوگئی کہ یہ ایک قسم کا فٹنس سرٹیفیکٹ ہے جو مکینک یا گیراج گاڑی کو چیک کرے گا، اس بات کو یقینی بنائے گا کہ گاڑی سڑک پر چلنے کے لئے محفوظ ہے، بریک وغیرہ ٹھیک ہیں۔ امیشن ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ گاڑی معیار سے زیادہ تو دھواں خارج نہیں کر رہی۔
انشورنس بھی خاصی مہنگی لگ رہی تھی۔ میں نے انشورنس ایجنٹ سے کہا
” بھئی مجھے تو دو تین سال میں گاڑی کی قیمت سے زیادہ انشورنس دینی پڑے گی”۔
” بات صرف گاڑی کی قیمت کی ہی نہیں ہے، انشورنس اس لئے مہنگی ہے کہ اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے اور خدانخواستہ کوئی معذور ہو جائے تو انشورنس کمپنی زندگی بھر اس کا خرچہ پانی دے گی” انشورنس ایجنٹ نے کہا
بات معقول تھی۔
انشورنس کے بعد گاڑی کی رجسٹریشن، سالانہ ٹیکس اور نمبر پلیٹ کا بھی مرحلہ تھا۔
کیوں بھئی جب ہم گاڑی خریدیں گے تو کیا پرانا مالک اس کی نمبر پلیٹ اتار لے گا، یہ کیا بات ہوئی؟
پتہ یہ چلا کہ نمبر پلیٹ گاڑی کی نہیں بلکہ مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ آپ گاڑی خریدیں تو اپنی نمبر پلیٹ بھی خریدیں۔ بہرحال سارے مرحلے بخوبی طے ہو گئے تو مجھے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ یہ ایک انتہائی عمدہ نظام ہے، اس میں کسی بھی مرحلہ پر کسی قسم کی بے جا رکاوٹ، دھاندلی یا رشوت ستانی کو کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کام صحیح ہے تو کوئی اڑنگا نہیں لگ سکتا، کام غلط ہے تو کوئی کروا نہیں سکتا۔