والدین کی نئی نسل سے شکایات
دیر سے سوتے ہو دیر سے اٹھتے ہو
ہر وقت سیل فون کان سے لگا رہتا ہے، گھر والوں سے بات کرنے کی فرصت نہیں۔ کہیں غلظ صحبت میں نہ پڑ جائے
پڑھائی کی طرف سے لاپرواہ ہے۔ مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے
رشتہ داروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی آتا ہے تو کمرے سے باہر تک نہیں نکلتے
مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔نماز روزے کی کوئی پابندی نہیں
اردو لکھے پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہر وقت انگلش چل رہی ہوتی ہے
گوروں میں یا غیر مذہب میں شادی کرے گا، بعد میں پچھتائے گا۔ بہتر ہے اپنی کزن سے شادی کر لے
اولادکی سوچ
مجھے والدین کا ہر وقت عمل دخل پسند نہیں ہے
وہ پرانے خیالات کے لوگ ہیں، وئیرڈ ہیں۔ اپنی پرانی دنیا میں مست ہیں۔ مجھے پینڈو بنانا چاہتے ہیں
انہیں انگلش نہیں آتی۔ بس گزرا ہے۔ گھر میں کس طرح دوستوں کو لائیں۔ نکو بنے والی بات ہے
انہیں یہاں کے کلچر کا پتہ نہیں ہے اور نہ وہ اسے سمجھنا چاہتے ہیں
دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے میں اعتراض ہے۔ خا ص طور سے لڑکیوں کے ساتھ۔ میرے دوست میرا مذاق اڑاتے ہیں،مجھے چکن کہتے ہیں
پاکستان میں میری کزن سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ میں ایسا نہیں کر سکتا دوست کیا کہیں گے
دوسروں کے بچوں کی مثالیں دینا۔ انکے والدین سے سنا ہمارے سامنے دہرا دینا، ہم سے پوچھیں وہ بچے کیسے ہیں؟
ہر وقت اپنی مثالیں دیتے ہیں۔ ہروقت روایات اور خاندانی اقدار کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ سب پرانی باتیں ہیں، یہاں یہ سب کچھ نہیں چلتا
نوجوان والدین سے کیا چاہتے ہیں؟
بے جا پابندیاں نہ لگائیں
اپنی پسند کی شادی پر اصرار نہ کریں
مجھے بننے دیں جو میں بننا چاہتا ہوں