مغربی کلچر میں بچوں کی پرورش
کینیڈین کلچر جہاں ایمیگرینٹس کے لئے دوسرے چیلنج لے کر آتا ہے وہاں نئے کلچر میں بچوں کی پرورش بھی ایک بہت بڑ اچیلنج ہے۔ ہم اچھے والدین کس طرح بن سکتے ہیں جب ہمارے لئے سٹلمنٹ کے مسائیل کلیدی حیثیت رکھتے ہیں،ہمارا کلچر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے،ہم اپنے گھرانے اور ان دوستوں سے کٹ چکے ہوتے ہیں، جو وطنِ عزیز میں ہمارے مسائیل کے حل کرنے میں کسی نہ کسی طرح شریک رہتے تھے۔
لوگوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کووہ کینیڈا کیوں آئے ہیں تو زیادہ تر کا جواب ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے۔ بہتر مستقبل کا مطلب ہے اچھی پڑھائی، اچھی نوکری اور ا سکی وجہ سے بہتر معیارِ زندگی۔ لیکن آنے سے پہلے ہم میں سے بہت سے لوگ کلچر کو فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔
ہم میں بہت سے والدین یہاں کے کلچر کو بہت زیادہ آزاد سمجھتے ہیں، اور اس آزاد کلچر سے اپنے بچوں کو بچانے کی مختلف انداز میں کوششیں کرتے ہیں اور دوسرے والدین کو بھی اس کی تاکید کرتے ہیں۔
ہم نئے کلچر سے اپنے روزمرہ کے معمولات، جان پہچان کے لوگوں، میڈیا اور دیگر ذرائع سے متعارف ہوتے ہیں۔ اس میں بھی ہم اپنی مرضی استعمال کرتے ہیں کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں۔ بہت سی چیزوں کو ہم سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ لیکن کیا ہمارے بچوں یا نئی نسل کے پاس کسی ایسی مرضی کی گنجائش ہے؟
کینیڈا میں رہنے اور پلنے بڑھنے والے بچے شروع ہی سے مغربی انداز سے آشنا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے سکول کے دنوں ہی میں آزادی، خود مختاری اور اپنی ذات سے متعلق فیصلہ کرنا سیکھتے ہیں اور فیصلہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے کلچر سے متصادم ہے۔وطنِ عزیز میں اس قسم کی آزادی اور خود مختاری کا واضح مطلب خاندانی اقدار سے بغاوت تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کینیڈا میں بچے مغربی انداز سکول سے ہی سیکھنا شروع کر دیتے ہیں، جہاں وہ اپنے دن کا بڑا حصہ گزارتے ہیں۔ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مغربی انداز کا اثر قبول نہ کریں بالکل ایساہی ہے کہ آپ کسی کو پانی میں پھینک کر یہ توقع کریں کہ اسے بھیگنا نہیں چاہئے۔
اقدار کا یہ تصادم بلوغت کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب بہت سارے جسمانی اور جذباتی تغیرات جنم لیتے ہیں۔ بیشتر والدین کے مطابق بچوں سے تعلقات بنانے اور بگاڑنے کے لحاظ سے یہ سب سے مشکل زمانہ ہوتا ہے۔
بلوغت کے چیلنجز کے علاوہ امیگرینٹس کو بچے اور بچیوں کے ساتھ دونوں متصادم کلچرز کے درمیان توازن رکھنے میں بہت زیادہ دشواری پیش آتی ہے۔نوجوانوں کے ایک طرف والدین ہوتے ہیں جو ان سے توقع کرتے ہیں کہ نوجوان نسل اپنی روایات کو برقرار رکھے گی اور دوسری جانب ان پر اپنے ساتھیوں کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ کینیڈین روایات کے ساتھ چلیں۔ والدین اور نوجوان اولاد میں تصادم نا گزیر ہے۔ بات چیت میں رکاوٹ یا باہمی روابط میں کمی اس صورتِ حال کو اور بگارتی ہے۔
وطنِ عزیز میں بچے اپنے تمام تر اخراجات بشمول تعلیم اخراجات کے لئے والدین پر انحصار کرتے ہیں۔ سکول، کالج، یونیورسٹی بلکہ پیشہ وارنہ تعلیم جس کے اخراجات فی زمانہ لاکھوں روپے تک پہنچ گئے ہیں، والدین ہی اٹھاتے ہیں۔ کینیڈا میں صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں
کے ماحول معاشرہ کی ترتیب اس طرح ہے کہ ہر ایک کو کام کرنا پڑتا ہے۔اسی عنوان سے نوجوانوں کو سکول سے نکلتے نکلتے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پٹرتا ہے اور اپنے تمام اخراجات خصوصاً تعلیمی اخراجات خود ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں اوسط آمدنی والے والدین اگر چاہیں بھی تو وہ اس سلسلے میں کوئی خاص مالی امداد فراہم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ نوجوان کم عمری سے ہی اپنا بوجھ اٹھانے لگتے ہیں اور خود مختار ہونے لگتے ہیں اور یوں والدین پر انحصار کم سے کم ہو جاتا ہے۔ اب اگر والدین ان پر خواہ مخواہ اپنی مرضی ٹھو نسنا شروع کردیں تو دو طرفہ مسائل پیدا ہونا شروع ہع جاتے ہیں
والدین کی اپنی زبان اردو، پنجابی یا کچھ اور ہو سکتی ہے، جب کہ بچوں کی روز مرہ کی بول چال کی زبان انگلش ہی ہوتی ہے۔ اس طرح دونوں نسلیں نہ صرف بولنے میں الگ الگ زبانیں استعمال کرتی ہیں، بلکہ دو الگ الگ زبانو ں میں سوچتی ہیں۔ روابط قائم رکھنا ذہنی اور زبانی اچھے تعلقات کے لئے ضروری ہے اگر والدین اور بچے الگ الگ زبانوں میں بولتے اور سوچتے ہیں تو وہ کس طرح کوئی کارآمد بات کر سکتے ہیں۔ متقف ہو سکتے ہیں یا کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں
جب دونوں نسلوں میں روابط ہی کمزور ہیں، بات چیت میں تعطل ہے، تو بچے اپنے والدین کے کلچر اور اقدار کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ وطنِ عزیز مین اگر باہمی روابط کی کمی ہوتی تھی تو وہاں کا ماحول اور دیگر افراد اس کمی اور اس باہمی گفت و شنید کی خلیج کو پورا کر رہے ہوتے تھے۔
زید صاحب اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ دو تین سال پہلے کینیڈا آئے تھے۔ انکی بات چیت اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر انہیں آپ با آسانی اقدار کاعلم بردار اور سخت گیر باپ کہہ سکتے ہیں۔ انگلش بول چال میں بہت کم زور ہیں۔
ان کا بڑا بیتا اب گریڈگیارہ، بیٹی گریڈنو اور سب سے چھوٹابیٹاگریڈ سات میں ہے۔ وہ اپنے بڑے بیٹے سے بہت شاکی اور ناراض ہیں۔ اتنے ناراض ہیں کہ بیٹے سے ان کی بول چال بند ہے۔ انہیں شکائیت ہے کہ بیٹا اپنی من مانی کرتا ہے ان کی سنتانہیں ہے۔ سکول میں پڑھائی کم اور لیڈری زیادہ کرتا ہے۔ ا سکے دوست بھی ا س کی لیڈری کی وجہ سے ہر اچھے برے کام میں آگے کر دیتے ہیں۔کسی ایسے ہی کام کی پاداش میں اسے چند ہفتے پہلے سکول سے خارج کر دیا گیا۔ زید صاحب کے گھر میں ٹی وی نہیں ہے (ان کے خیال میں کینیڈین ٹی وی پر سوائے خرافات کے اور کچھ نہیں ہوتا) ، اور اس کے پاس کرنے کو بھی کچھ نہیں اس لئے یا تو دن بھر گھر میں سوتا رہتا ہے یا آوارہ گردی کے لئے نکل جاتا ہے۔ پچھلے ہفتہ اس نے کسی فیکٹری میں شام کی جاب پکڑ لی ہے۔ شام میں چھ بجے جاتا ہے اور رات میں دو بجے لوٹتا ہے۔ زیدصاحب کو ہی اسے چھوڑنا اور لانا پڑتا لیکن اس کے باوجود راستے میں کوئی بات چیت نہیں ہوتی۔ آدھی رات ہو جاتی ہے۔ زید کی ماں بھی اس کی فیکٹری کی جاب سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زید کو صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دینا چاہئے
صورتِ حال کیسی بھی ہو والدین کو اپنی اولاد سے بات چیت کے راستے کبھی بھی بند نہیں کرنے چاہئے اور اپنے مرضی مسلط کرنے کے بجائے اولاد کے ساتھ ایک کوچ کا کردار اپنانا چاہئے۔ زید صاھب کے پاس اس وقت سنہر ی موقع ہے۔ انہیں چاہئے کہ زید کو نوکری پر چھوڑتے اور واپس لاتے ہوئے اس سے ٹھنڈے دماغ کے ساتھ گفتگو کریں۔دید صاحب کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ان کے بیٹے نے کوئی منفہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے خود کو بہت مثبت طریقے سے مصروف کر لیا ہے۔ زید سے بات چیت کت بعد اس کے سکول جائیں۔ اگر انہیں انگلش بولنے میں مشکل ہے تو کسی جان پہچان والے کو ساتھ لے جائیں۔ سکول سٹاف سے بات کر کے مسئلہ کاحل نکالنے کی کوشش کریں۔ گفتگو دروازے بند کرنے اور ضد بحث سے زید صاحب اور انکی فیملی کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔