کہانی پہلے سو دن کی

        

آج ہمیں کینیڈ ا میں سو دن پورے ہوگئے ہیں۔ میں خرچہ کا حساب کتاب لگا رہا تھا۔ ہمارے لئے سب سے بڑا خرچہ رہائشی کرایہ تھا۔اسکے بعد بس ٹکٹ، گھر کاسودا سلف، ٹیلیفون اور دیگر اخراجات۔

            کسی ایک طرف بھی بس سے جانے کیلئے تین ڈالر کا ٹکٹ۔ ہم دو آدمی روزانہ ۲۱ ڈالر صرف  بس کے کرایہ کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ گویا دو ڈھائی سو ماہانہ۔ اگر ہمارے پاس گاڑی ہو تو اتنا ہی اس کا خرچہ ہو اور سہولت کی سہولت۔

            بسوں میں کافی وقت ضائع ہوتا ہے، اور بعض وقت خصوصاً ملازمت کی تلاش میں بسوں سے پہنچنا اور وقت سے پہنچنا اکثر اوقات ناممکن ہوتا ہے۔ کیا کریں فی الحال تو جیب اجازت نہیں دیتی۔ کوئی ملازمت مل جائے تو گاڑی کا بھی سوچیں۔

              ا س عرصے میں جہاں اور کام ہوئے وہاں ہم نے ڈرائیونگ لائنس بنواے کی بھی کوشش کی۔ لگے ہاتھوں یہ کہانی بھی سن لیں۔

            یہاں ڈرائیونگ لائسنس کے تین درجے ہیں۔پہلا درجہ ‘جی ون’ کہلاتا ہے(اسے اپنا پاکستانی لرنرزڈرائیونگ لائسنس سمجھ لیں)۔ اس کا ٹسٹ تحریری یا کمپیوٹر سے ہوتا ہے۔ اسکے بعد دوسر ا مرحلہ روڈ ٹسٹ کا آتا ہے جسے پاس کرنے کے بعد آپ کو ‘جی ٹو’لائسنس مل جاتا ہے، اور آپ سڑک پر گاڑی چلا سکتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد آپ ہائی وے کا ٹسٹ دے سکتے ہیں یہ ‘جی’ کہلاتا ہے۔

            گوکہ ہم وطنِ عزیز میں کئی سال سے گاڑی چلا رہے تھے اور ہمارے پاس مصدقہ ڈرائیونگ لائسنس تھا لیکن یہاں کے قوانین کے مطابق ہمیں پہلے ہی مرحلہ یعنی سے ‘جی ون ‘ سے شروع کرنا تھا۔ بیگم بھی پاکستان میں ڈرائیونگ کرتی رہی تھیں، انکے پاس بھی لائسنس تھا لیکن انکو بھی اس مرحلے سے گزرنا تھا۔

             جی ون ٹسٹ میں زیادہ تر سڑکوں پر لگے ہوئے ٹریفک کی علامات اور روڈ سیفٹی کے بارے میں سوالات ہوتے ہیں۔  اس ٹیسٹ کی تیاری کیلئے حکومت کی منظور شدہ کتاب بھی ہے۔ بیگم نے تو کتاب کا  “گھوٹا “لگاناشروع کیا  اور ہم سے بھی کہا کہ کچھ پڑھ لیں۔

             ” بھئی آپ ہی پڑھیں، آپ کو ضرورت ہے، میں بیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں مجھے ضرورت نہیں ” میں نے کہا

            اگلی صبح ہم لوگ ڈرائیونگ لائسنسکے دفتر پہنچ گئے۔ ٹسٹ کے فارم بھرے اور فی آدمی سوڈالرفیس جمع کی۔ کاوئنٹروالی نے ہماری تصویریں اتاریں اور ہمیں ایک پرچی دے کرٹسٹنگ روم کا راستہ دکھا دیا۔یہاں ذرا رش تھا، اسلئے ہم لوگوں کو کچھ دیر بیٹھنا  پڑا۔ جیسے جیسے کمپیوٹر خالی ہوتے جاتے تھے، نئے آنے والوں کا نمبر آتا جاتا تھا۔کچھ وقفے کے بعدہم لوگوں کا نمبر بھی آ گیا۔

            ٹسٹ شروع ہوا۔ پہلے مرحلے پر ٹریفک کی کچھعلامات شناخت کرنی تھیں۔ میرے لئے کچھ علامات تو بالکل نئی تھیں،  اس لئے اٹکل پچو جوابات دے دئے۔ اگلے مرحلے میں کچھ روڈ سیفٹی کے سوالات تھے، جس میں سے بیشتر سوالات میرے لئے اجنبی تھے۔ اس میں بھی تکے سے کام لیا۔ کل ملا کر چالیس سوالات کے جوابات دینے تھے۔ سوالنامہ ختم ہوا۔

            کمپیوٹر نے اسی وقت نتیجہ بتا دیا۔ بندہ فیل تھا۔مجھے زبردست جھٹکا لگا۔کمبخت نے میرے بیس سال کے تجربہ کو بھی گھاس نہیں ڈالی۔ میں نے دل میں سوچا کہ جب  میرا یہ حال ہے تو بیگم کاتوکباڑا ہی ہو گیا ہوگا۔

            باہر نکلے تو دوسرا جھٹکا لگا، بیگم پاس تھیں۔معاملہ صاف تھا۔ وہ تیاری کر کے گئی تھیں اور ہمیں ہماری بے جاخود اعتمادی لے بیٹھی۔ خیر صاحب، بہت شرمندہ اور دل گرفتہ واپس آئے۔

            بہرحال اس واقعہ سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ یہاں کھیل کے اصول وطنِ عزیز سے بالکل مختلف ہیں۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ اب ہر چیز کو آسان سمجھنا چھوڑ دونگا، اور حقیت پسندی سے کام لونگا۔ پدرم سلطان بود والا زمانہ ختم ہو گیا۔  یہ کینیڈا ہے اور یہاں زندگی نئے سرے سے شروع کرنی ہو گی اگرپرانے تجربے کی عینک سے چیزوں کو دیکھتے رہے تو آئندہ بھی وہی حال ہو گا جو ڈرائیونگ ٹسٹ کا ہوا۔

             اس عرصے میں ہم لوگوں کے ہیلتھ کارڈ بھی بن گئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا ذہنی دباؤ تھا کہ ہم سب بغیرہیلتھ انشورنس کے گزارا کر رہے ہیں۔ اللہ کا کرم رہا کہ کوئی بیمار نہیں پڑا اور کسی کو کوئی چوٹ وغیرہ نہیں لگی اور اس طرح یہ وقت بخیر و خوبی گزر گیا۔ میں اس بات کے قطعی حق میں نہیں تھا کہ بغیر انشورنس کے رہا جائے، لیکن مالی حالات ایسے تھے کہ انشورنس لینا مشکل تھا۔ خود میں کسی کو یہ مشورہ نہیں دونگا کہ اگر جیب اجازت دے تو اس قسم کا خطرہ مول لینے سے پرہیز کیا جائے۔

            ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بیگم کو سکول میں لنچ روم سپر وائزرکی ملازمت مل گئی ہے۔روزانہ ایک گھنٹہ کی مصروفیت ہے۔ ۰۱ڈالرفی گھنٹہ کے حساب پر سے دو سو ڈالر ماہانہ کی لگی بندھی آمدنی ہے۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ سکول پاس  میں ہے ا س لئے  ٹرانسپورٹ کا کوئی خرچہ نہیں ہے۔ سکول کے عملے اور دیگر افراد سے ملاقات رہتی ہے جس سے معلومات میں خاصہ اضافہ ہوتا ہے۔روزانہ  آنے جانے سے سکول کے ماحول کا اندازہ ہو رہا ہے جو کہ کافی چونکانے والا ہے

            ایک ٹیچر نے بتایا کہ وہ کئی دن سے ایک بچے کی حرکات اور سکنات پرنظر رکھے ہوئے تھی۔ یہ بچہ دوپہر کے بعد بہت سست ہو جاتا تھا اور اکثر اونگھے لگتا تھا۔ٹیچرکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر بیمار ہے تو اسے دن بھر ہی سست رہنا  چاہئے۔  ہو سکتا ہے؛لنچ بریک میں سکول کے میدان میں بہت زیادہ بھاگتا دوڑتا ہو اور خود کو تھکا لیتا ہو؟ بہرحال سستی کی وجہ کچھ بھی ہو اس کا  پتہ ہونا چاہئے اور اس کا مناسب تدارک کرنا چاہئے۔ لنچ بریک ہو ا تو سب طلباء باہر بھاگے۔ اس بچے نے اپنے بیگ سے کھانے نے کا ڈبا نکالا اورباہر چلا گیا۔ ٹیچر نے کھڑکی سے دیکھا کہ بچے نے ادھر ادھر دیکھ کر سارا کھانا ایک کوڑے کے ڈبے  میں خالی کر دیا اور جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ بعد کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ بچے کی ماں روزانہ رات کابچا ہو ادیسی کھانا لنچ کے نام  پر پیک کر دیتی تھی، جس سے مصالحوں کی تیز مہک آ رہی ہوتی تھی۔ سب بچے طرح طرح سے اس لڑکے کا مذاق اڑاتے تھیاور اس بچے کا نام ہی سپائسی مین رکھ دیا تھا۔ٹیچر نے دوسرے ہی دن بچے کی ماں کو بلایا اور مناسب الفاظ میں تنبیہ کی۔

            کینیڈا چائلڈٹیکس بھی ملناشروع ہو گیا ہے۔ پچھلے ہفتے پہلا چیک بینک میں آ گیا،سرکا رنے پچھلی تمام رقم کی یکمشت ادائیگی کر دی ہے۔ آئندہ ادائیگی ماہانہ ہوا کرے گی۔اس مفلسی کے زمانے میں ہمارے لئے یہ بہت بڑا سہارا تھا۔

            تینوں بچے اپنے سکولوں سے مطمئن ہیں اور اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ چھوٹے کا سکول الگ ہے، بڑے دونوں ایک ہی سکول  میں ہیں۔ دونوں سکول گھر کے نزدیک ہیں، اسلئے گاڑی یا بس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم لوگوں نے اول دن طے کر لیا تھا کہ سکول میں والدین اور ٹیچر میٹنگ میں ضرور شرکت کی جائے۔ فی الحال  دونوں سکولوں میں ایک ایک میٹنگ ہوئی ہے، جس میں ہم لوگ  شرکت کر چکے ہیں۔

            ٰٓایک سیکنڈ ہینڈ کمپیوٹر بھی خرید لیا ہے، کوئی یونیورسٹی کا طالب علم بیچ رہا تھا۔ بڑے بیٹے کو کمپیوٹر کاا چھا خاصا کام آتا ہے۔ اس نے فوراً کمپیوٹر لگایا اور چلا بھی دیا۔ ہم سب کو بہت آسانی ہو گئی، بچے اپنا ہوم ورک کر لیتے ہیں۔ میں نوکریاں ڈھونڈتا ہوں اور اخبار پڑھ لیتا ہوں۔ بیگم موسم کا حال اور کھانے پکانے کی ترکیبیں دیکھ لیتی ہیں۔ غرضیکہ واش روم کی طرح کمپیوٹر پر بھی امیدواروں کی لائن لگی ہوتی ہے۔

            کمپیوٹر کے ناطے ہمیں کمپیوٹر کی میز بھی خریدنی پڑی۔ اس نے جگہ تو گھیری لیکن اس کے بغیر کمپیوٹڑ کا استعمال مشکل کام تھا۔ یہاں آنے کے بعد پہلا فرنیچر ہے جو ہم خریدسکے ہیں۔

            کمپیوٹر کی میز کے علاوہ جو کارآمد چیز خریدی گئی ہے وہ ہے ایک چھوٹا سا ریڈیو سیٹ۔ایک مقامی ریڈیو سٹیشن ہے جو ہندی، اردو اور دیگر ساؤتھ ایشن زبانوں میں دن بھر خبریں، گانے، اشتہارات، انٹرویو اور پتہ نہیں کیا کیا نشر کرتا رہتا ہے۔ بیسمنٹ کے روشندان کے بعدہماری زندگی میں یہ ایک اہم اور کارآمد  شئے ہے جس کی وجہ سے ہم مہذب دنیا سے رابطے میں ہیں

            پچھلے تین مہینوں میں ایک چھوٹا حلقہ احباب بھی بن گیاہے۔پڑوس میں ایک دو پاکستانی گھرانے ہیں، جن سے آتے جاتے یا بچوں کی وساطت سے تعارف ہوگیا ہے، کچھ لوگ جن کا فون نمبر ہم پاکستان سے چلتے ہوئے لائے تھے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دو پرانے دوست مل گئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ خود بھی جدوجہد کے مرحلے میں ہیں لیکن کسی نہ کسی صورت رابطہ جا ری ہے۔    

            پچھلے دنوں اردو کے قلم کاروں کی مجلس میں بھی شرکت کا ۱تفاق  ہوا۔ دو ڈھائی گھنٹے کی یہ محفل بہت پر لطف رہی۔ لگ رہا تھا پاکستان میں بیٹھے ہیں۔ میرے پاس گاڑی نہیں ہے لیکن ایک کرم فرما نے پیش کش کی ہے کہ اگلی دفعہ اگر جانا ہو تو وہ مجھے ساتھ لے جا سکتے ہیں اور واپس چھوڑ سکتے ہیں۔ ان کی مہربانی۔ دل تو چاہتا ہے لیکن دیکھیں حالات کیسے رہتے ہیں۔

            پہلے ہم ہر دو ہفتے کے بعد گھر فون کرتے تھے، لیکن اب ہر ہفتے فون کرتے ہیں۔ پیسے تو خرچ ہو تے ہیں، لیکن  سب کی خیریت مل جاتی ہے، اطمینان ہو جاتا ہے۔

            موسم اب اتنا سخت نہیں رہا لیکن ہمارے حساب سے ابھی بھی بہت سردی ہے۔ہم جو کپڑے اپنے ساتھ لائے تھے  وہ گرم تو تھے لیکن یہاں کی سردی کے حساب سے ناکافی تھے۔ کچھ گرم کپڑے، اونی موزے، دستانہ اور خاص طور سے یہاں کے جوتے خریدنے کے بعد ہم یہاں کی سردی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے ہیں۔

             ہمار ا چھوٹا بیٹا آئس سکیٹنگ کا بہت شوقین ہے اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ لائبیریری کے باہر ایک چھوٹا سا رنگ ہے، جو اس کی پسندیدہ جگہ ہے۔کبھی کبھار وہ ہم لوگوں کو پکڑ کر آئس ہاکی دکھانے بھی لے جاتا ہے، گوکہ ہاکی فیلڈ  پر مکمل چھت ہے اور پوری طرح ڈھکی ہوئی ہے، لیکن ہمارے لحاظ سے اچھی خاصی سردی ہوتی ہے۔ وہ حضرت تو بہت لطف اندوز ہوتے ہیں، ہم لوگوں کی قلفی جم جاتی ہے۔

            مالک مکان بہت اچھے ثابت ہوئے ہیں اور اس فیملی کی وجہ سے ہمیں قدم جمانے میں بہت آسانی ہو گئی۔یہ فیملی یہاں کئی سال سے ہے اور ان  کے بے شمار رشتہ دار بہت پہلے سے یہاں ہیں اس وجہ سے ان کو بہت سہولت ہے۔بڑا بیٹا ہمارے چھوٹے بیٹے کا ہم عمر ہے اور اس سے چھوٹی تین سا ل کی بہن ہے۔ دونوں بچے اکثر ہمارے پاس نیچے آجاتے ہیں، انہیں فرائی انڈا پسند ہے۔ ہمارے چھوٹے بیٹے کو اوپر والی آنٹی کے ہاتھ کی روٹی پسند ہے ا سلئے یہ بارٹر سسٹم چلتا رہتا ہے۔ چونکہ لانڈری مشین مشترکہ ہے اور نیچے ہے اس لئے بھی خواتین کا آپس میں رابطہ رہتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہم حلال غذاؤں کے بارے میں بہت محتاط ہیں، ہمیں بھی ان کی مذہبی روایات کا اندازہ ہے اس لئے دو طرفہ احتیاط رہتی ہے۔ شبہ کی صورت میں پوچھ لیا جاتا ہے۔

            یہ سب کچھ صحیح ہے لیکن ابھی تک مجھے جس چیز میں مسلسل ناکامی ہوئی ہے وہ ہے نوکری کا حصول۔ میں نے آنے کے فوراً بعد ہی اپنے ریزیومے کو نئے پتہ، ٹیلیفون نمبر اور ای میل کے ساتھ نئی شکل دے دی تھی۔  مجھے یہاں کے اخباروں میں کئی ایسی ملازمتیں نظر آئی تھیں جو میری ڈگری اور تجربہ سے کافی حد تک مطابقت رکھتی تھیں۔میں نے درخواست بھی دی لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔پہلے میں صرفچھٹی کے دن کے اخبار دیکھ کر نوکری کی درخواستیں دیتا تھا، اب روزانہ اخبار دیکھتا تھا، انٹرنیٹ پر بھیکھوج کرتا تھا اور آن لائن بھی کافی درخواستیں ڈال چکا تھا لیکن مجھے حیرانی اس بات کی ی کہ نوکری ملنا تو درکار، ابھی تک  کسی نے انٹرویو کے لئے بھی بلانے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ یہ صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ جس کا بظاہر کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

….. not only for newcomers