ناہموار پرواز، ہموار لینڈنگ

جیسے ہی جہاز کے مائیک پر اعلان ہوا کہ ہم تھوڑی دیر میں پئیرسن ائرپورٹ ٹورانٹو پر اترنے والے ہیں تو میرے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی۔ ویسے تو سفر میں تمام وقت میں کافی ذہنی دباؤ میں رہا پر اس وقت تو لگ رہا تھا کہ میرا بلڈ پریشریقیناً نئی بلندیوں کو چھو رہا ہو گا۔ 

            میں نے اپنے اطراف میں دیکھا۔ میری بیٹی اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو جھنجھوڑ رہی تھی

            “سارے راستے کھاتے اور سوتے آئے ہو۔کاہلو اب اٹھ جاؤ، ٹورانٹو آنے والا ہے۔ سامان سمیٹو اور کرسی کی پشت سیدھی کر لو”

            ٹورنٹو اترنے سے پہلے جہاز والوں نے کسٹم ڈکلیریشن فارم تقسیم کئے۔ میں نے فوراً ہی فارم بھر لئے۔ اگر بھرنے سے رہ گئے تو کسٹم پر مسئلہ ہو سکتا ہے۔ پورے راستے کئی جگہ پرواز ناہموار رہی، لیکن لینڈنگ بہت سبک تھی۔ جہاز کے اترنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔

            “تم لوگ کسی بات میں دخل مت دینا، ذرا پیچھے ہی رہنا” میں نے بڑے بیٹے سے کہا

            “مجھے یاد ہے آپ پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکے ہیں ” اس نے جواب دیا

            ٹورانٹو کا  پئیرسن ائیر پورٹ بہت طویل و عریض اور انتہائی صاف ستھرا لگ رہا تھا۔لیکن اس وقت یہ سب کچھ دیکھنے کا کس کوہوش تھا۔ یوں تو میں خود کو پورے راستے یقین دلاتا چلا آرہا تھا کہ ہم کینیڈا میں قواعد ضوابط کے مطابق امیگریشن لے کر  آرہے ہیں، تمام قانونی تقاضے پورے کئے ہیں، اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔مگر مجھے پتہ تھا کہ جب تک تمام مراحل سے گزر کر کینیڈین امیگریشن کا ٹھپہ نہیں لگ جاتا میری ذہنی کیفیت معمول پر نہیں آئے گی۔

              مسافروں کی قطاریں کافی طویل تھیں لیکن امیگریشن کاوئنٹر بھی کئی کھلے ہوئے تھے، ہم بھی  ایک قطار میں لگ گئے۔ میں غور سے جائزہ لے رہا تھا کہ کاوئنٹر پر کس طرح کی کارروائی ہو رہی ہے؟ کتنی دیر لگ رہی ہے؟ زیادہ چھان پھٹک تو نہیں ہو رہی۔ میں ا سی غورو فکرمیں تھا کہ ہمار انمبر آ گیا امیگریشن آفیسر نے ہمارے پاسپورٹ اور دیگر کاغذات چیک کئے۔ ایک سرسری نظر سے سب کی شکلوں اور پاسپورٹ پر لگی تصویروں کا جائزہ لیا، لیکن سوال  کوئی نہیں کیا۔ کاروائی مکمل کرنے کے بعد تو اس نے ہمارے کاغذات   واپس کئے اور کہا

            ”   ویل کم ٹو کینیڈا! “

            چند لمحوں کے لئے یقین نہیں آیا کہ سب کچھ اتنی آسانی سے کیسے ہو گیا۔ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ بال کی کھال نکالی جائے گی۔ پتہ نہیں کیا کیا ہو گا۔ ملنے جلنے والوں نے بھی بہت ڈرا رکھا تھا۔خواہ مخواہ سارے راستے پریشان رہے۔

             “کیا ہم لوگ جا سکتے ہیں؟ ” میں نے نہایت احمقانہ سوال کیا

            امیگریشن آفیسر مسکرایا” یہ آپ کا اپنا ملک ہے۔انجوائے!”

            میں ذرا سا جھینپا. شکر یہ ا دا کیا اور کاغذ سمیٹے ہوئے کاوئنٹر چھوڑ دیا

            “لائیں اب سارے پاسپورٹ اور کاغذات مجھے دے دیں، میں ان کو ترتیب سے لگا دوں۔ ابھی سامان کے کسٹم کا مرحلہ بھی درپیش ہے” بیگم کو کاغذت کی بہت فکر تھی

            ہمارے پاس 10 سوٹ کیس تھے۔ پانچ لوگوں پر مشتمل امیگرینٹ فیملی کے لحاظ سے سامان کم تھا لیکن اسے لے کر چلنا آسان نہ تھا۔

             ہم نے سامان کے لئے چار عدد ٹرالیاں لیں، سفری بیگ کاندھوں پر لٹکائے اور ہاتھوں میں پاسپورٹ لے کر کسٹم کرانے پہنچ گئے۔ کسٹم آفیسر نے ہم سے ڈکلیریشن فارم لیا۔ اس فارم میں کوئی ڈیوٹی کے قابل چیز نہیں تھی۔

               سامان میں کیا ہے۔سگریٹ، کھانے کا سامان وغیرہ “

             ” نہیں صرف ضرورت کا سامان ہے”  میں نے جواب دیا

            میں نے اپنے سامان کی لسٹ بنا رکھی تھی، سوچا کہ اگر تفصیلات میں جائیں گے تو لسٹ تھما دوں گا۔

             ” کچھ سامان بعد میں تو نہیں آئیگا؟”سوال کیا گیا

             ” نہیں جو کچھ ہے یہی ہے”

            کسٹم والے نے ہمارے فارم پر ٹھپہ لگایا، تھینکیو کہا اور آگے جانے کا اشارہ کر دیا۔

کسٹم ہال کے باہر نکلے تو لوگوں کاایک ہجوم اپنے پیاروں کا انتظار کر رہا تھا، ہمارا انتظار کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم  یہاں اجنبی تھے۔ نہ ہم کسی کو جانتے تھے اور نہ ہی کوئی ہمیں جانتا تھا۔بے خیالی میں ادھر ادھر دیکھا اور سر جھکا کرچل دئے۔ باہر آکر میں نے ایک لمبا سانس لیا، دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور بچوں کی طرف دیکھا

              ” اب کیا پروگرام ہے؟”

             ” پروگرام؟ سامنے ہی’ ٹم ہارٹن ‘ہے۔ اس کی کافی اور ڈونٹ پورے کینیڈا میں مشہور ہیں۔ آپ ہمیںیہاں لے چلیں۔ ہم لوگوں نے آپ کو پورے راستے بالکل تنگ نہیں کیا”

            میرا بڑا بیٹا دوسرے بچوں کی طرف دیکھ کر شرارت سے مسکرایا گویا وہ ان کی تائید سے یہ بات کہہ رہا ہے

            “ٹھیک ہے، لیں اسی میں چلتے ہیں۔ تم لوگ بیٹھو، میں ذرا ٹیلیفون بوتھ ڈھونڈتا ہوں، گھرتو اطلاع کردیں لوگ انتظار میں بیٹھے ہونگے  “

            “میں بھی ساتھ چلتی ہوں “بیگم نے کہا۔ بچوں نے ٹرالیوں کا رخ ٹم ہارٹن کی طرف موڑ دیا۔

            ا س وقت پاکستان میں کیا بجا  ہو گا، اس انٹرنیشل کال پر کتنے ڈالر خرچ ہونگے، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی ٹیلیفون بوتھ سامنے ہی تھا۔  میں نے کارڈ ڈالا ور فون ملایا۔ دوسری طرف پہلی ہی گھنٹی پر میری چھوٹی بہن نے فون اٹھایا، لگ رہا تھا وہ فون کے پاس ہی بیٹھی تھی۔

             سلام دعا کے بعد سوالات شروع  ہوگئے۔

            سفر ٹھیک رہا؟خیریت سے پہنچ گئے؟امیگریشن پر کوئی پریشان تو نہیں ہوئی، سامان تو چیک نہیں ہوا، بچے ٹھیک ہیں وغیرہ وغیرہ

            میں نے کہا”تم لوگوں کی دعا سے سب ٹھیک ہے۔  اب دو تین دن کے بعد فون کریں گے۔ ذرا رہنے کی جگہ مل جائے۔ سب لوگوں کوخیریت بتا دینا”  اسکے بعد بیگم نے فون پکڑ لیا۔

            کافی ہاؤس کے برابر میں ہی نئے آنے والوں کی رہنمائی کے لئے ایک کاوئنٹر تھا، میں نے وہاں سے مختلف کتابچہ اور فلائر اٹھائے، قریب ترین سستے ہوٹل کا پتہ کیا جہاں ہم جیسے نئے امیگرینٹ کچھ عرصے رہ سکیں اور سامان کی ٹرالیوں کو دھکا دیتے ہوئے باہر نکل آئے۔

            سامان کافی تھا اس لئیہم لوگوں کودو ٹیکسی کرنی پڑیں۔میں ایک ٹیکسی میں بیٹی کے ساتھ اور  بیگم دوسری ٹیکسی میں دونوں بیٹوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔

                         واہ بھئی کیا جگہ ہے۔ کھلی اور کشادہ سڑکیں، روا ں ٹریفک، نہ کوئی ہا رن کی آواز، آلودگی سے پاک فضاء، خوبصورت اور چمکتی ہوئی عمارتیں اور دل ر با مناظر۔

              نومبر کا مہینہ تھا اور سردی مزاج پوچھ رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ سردی کے کپڑے  جو ہم لوگ لائے ہیں وہ  یہاں قطعی ناکافی ہونگے۔

            ہوٹل کا کرایہ خاصہ مناسب تھا۔ 80 ڈالر روز اور دو اضافی بیڈ کے دس ڈالر۔ ہم نے کمرے میں سامان رکھ کر ہوٹل کے ڈائننگ ہال کا رخ کیا۔میری تو بھوک سے بری حالت تھی، سارا ذہنی  اضطراب اور بے چینی رخصت ہو چکی تھی۔ انڈے کے سینڈوچ،بسکٹ اور کافی نعمت لگ رہی تھی، ہم نے احتیاطاً گوشت کی بنی ہوئی کسی چیز پر توجہ نہیں دی۔ کھانے کے بعد کمرے کا رخ کیا،ہفتہ بھر کی ذہنی اور جسمانی مشقت اب اپنا اثر  دکھا رہی تھی۔

            صبح سویرے ہی آنکھ کھل گئی تھی۔ باقی لوگ سوئے ہوئے تھے۔ میں کھڑ کی سے شہر کا نظارہ کرنے لگا۔ میں ابھی تک جٹ لیگ کے زیرِ اثرتھا،  تھوڑی دیر بعد   میری آنکھ دوبارہ لگ گئی۔ جب اٹھا تو گھڑی دس بجا رہی تھی۔ بچے آہستہ آہستہ اٹھ رہے تھے۔ اتنی دیر میں بیگم بھی اٹھ کرآچکی تھیں۔ فون پر ہی روم سروس کو ناشتہ کا آرڈر دے دیا۔

            ناشتہ کے بعد تھوڑی دیرمقامی اخبار دیکھنے کی کوشش کی ارادہ تھا کہ کرائے کے مکانوں کے اشتہار دیکھیں گے لیکن نیند کا ایسا جھونکا آیا کہ میں نے بسترپر آکر دم لیا۔ دوبارہ شور سے آنکھ کھلی تو اندازہ ہوا کہ کچھ کھانے کا بندوبست ہورہا تھا۔ ٹیلی ویژن چلنے کی بھی آواز آ رہی تھی۔ گھڑی دیکھی تو چار بج رہا تھا۔ میں کاہلی سے اٹھا اور منہ ہاتھ دھو کربیڈ روم  میں واپس آ گیا۔

  فش برگر، فرنچ فرائز، ٹماٹوکیچپ، کوک اور سیون اپ کے بڑے بڑے گلاس۔ بچے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔

             ہم ہوٹل میں بیٹھے رہائشی جگہ کے اشتہار دیکھ رہے تھے اور کرایہ کے مکانوں کی صورتِ حال کا  اندازہ لگا رہے تھے  کوشش یہ تھی کہ جلد از جلدکسی مکان کا معاملہ طے ہو جائے تاکہ ہوٹل کا خرچہ بچے۔ ہمارے بجٹ میں ہوٹل کی  تین دن سے  زیادہ کی گنجائش نہیں تھی۔

   ابتدائی چھان بینکے مطابق اپارٹمنٹ اور مکان اس  وقت ہماری پہنچ سے باہر تھے۔ایک بیڈ روم اپارٹمنٹ کا کرایہ نو سو ڈالر اور مکانوں کا کرایہ توگیارہ بارہ سو ڈالر سے کم نہیں اور اوپر سے بجلی پانی  وغیرہ کے بل یعنی تقریباّ  دو سو ڈالر کا مزید خرچہ۔

            زیادہ تر مالک مکان ایک مہینہ کا پیشگی اور ایک مہینے کا ڈپازٹ مانگ رہے تھے۔ ایک دفعہ کمائی شروع ہو جائے تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔اس تلاش کے دوران صرف تجربہ کی خاطرنے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کے دفتر میں فون کیا۔

             ذرا ان کی سنئے۔ گیارہسو ڈالر ماہانہ کرایہ، جس میں بجلی پانی سب شامل ہے۔ ٹیلی ویژن کیبل، ٹیلی فون سب آپ کا اپنا اور کار پارکنگ کے چالیس ڈالر الگ۔پہلے مہینہ کا کرایہ پیشگی، اور آخری مہینہ کا کرایہ ڈیپازٹ۔ ایک سال کے کرایہ نامہ  جسے وہ  لیز کہہ رہے ہیں، دستخط کرنے ہونگے۔اگر سال بھر سے پہلے آپ اپارٹمنٹ چھوڑیں  تو بقیہ لیز کے پیسے ادا کریںیا کسآپ خود کسی اور کو سب لیز کریں۔ اس کے علاوہ انہیں آپ کی نوکری کے کانٹریکٹ کی کاپی بھی چاہئے۔

            ان لوگوں نے یہ سنتے ہی کہ ہم نئے امیگرینٹ ہیں اور”بے کار ”  ہیں، انتہائی بے مروتی سے صاف جھنڈی دکھا  دی کہ جناب اس صورتِ حال میں تو ہم آپ کو  اپارٹمنٹ تو دے ہی نہیں سکتے۔ چلئے اللہ اللہ خیر صلا

            مناسب کرایہ میں کوئی رہائشی جگہ ڈھونڈنا کافی بڑامسئلہ لگ رہا تھا۔ ایسی جگہ جس کا کرایہ ہماری جیب کے مطابق ہو، سکول، بس سٹاپ، اور دیگر ضروریات بھی گھر کے نزدیک ہوں۔یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ فی الحال اپارٹمنٹ  وغیرہ ہماری استطاعت سے باہر ہیں ہمیں کوئی سستی جگہ دیکھنی چاہئے جہاں زیادہ بکھیڑے نہ ہوں۔

             میں نے ایک اور جگہ فون کیا۔ بیسمنٹ اپارٹمنٹ ہے۔

            بیسمنٹ اپارٹمنٹ؟کیاکوئی تہ خانہ ہے؟ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔

            چھ سو ڈالر ماہانہ کرایہ۔ بجلی اورپانی کے پچاس ڈالر الگ۔ تیرا سو ڈالر پیشگی۔ لیز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک مہینہ کے نوٹس پر جگہ خالی کر سکتے ہیں۔ جب چاہیں فون کر کے دیکھنے آ جایئں۔ پسند ہو تو کسی وقت بھی رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔

             شرائط تو معقول لگ رہی تھیں۔ خیر جگہ دیکھ لیتے ہیں۔آگے اللہ مالک ہے۔ اندازِ گفتگو سے لگا کہ کوئی دیسی فیملی  ہے۔لگتا ہے پھر دیسیوں میں ہی پھنس رہے ہیں۔

            یہطے ہوا کہ ذرا باہر کا چکر لگا لیتے ہیں بیسمنٹ بھی دیکھ لیں گے، بس کے سفر کا تجربہ بھی ہوجائے گا اور راستوں کی بھی معلومات ہو جائے گی۔ ہوٹل سے نکل کرہم لوگ بس سٹینڈ پر آ گئے۔ٹکٹ کی کھڑکی پر پہنچے اور بتایا کہ ہم نئے امیگرینٹ ہیں،  پہلی دفعہ بس سے گھومنے نکلے ہیں کچھ رہنمائی چاہئے۔ خاتون نے ہمیں ایک نقشہ تھما دیا اور بتایا کہ نقشہ کے مطابق ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس نے ہمیںیہ بھی بتایا

            ۔بسوں کے اندر ٹکٹ نہیں ملتے، آپ کو ٹکٹ یہاں سے ہی لینا پڑیں گے

            ۔   ڈرائیور  پیسوں کا لین دین نہیں کرتا،مشین میں پورے پیسے ڈالنے پڑتے ہیں

            ۔ایک ٹکٹ میں ہم ایک ہی سمت میں جتنی دور تک جانا چاہیں جا سکتے ہیں

            ۔ بس بدلنی ہو تو ٹرانسفر ٹکٹ مل جائے گا، کوئی نیا ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

              ہمیں لگا کہ  یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کاا نتظام سرکار کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

             ٹکٹ خریدے اور ایک ایسی بس میں سوار ہو گئے، جو ہمیں بیسمنٹ کے قریب اتار سکتی تھی۔ بس بہت لمبی تھی،لگ رہاتھا کہ دو بسوں کو جوڑ کر بنائی ہے۔ جب مٹرتی تھی تو بس کے اندر ہی اسکا آدھا حصہ مڑ جاتا تھا، ٹیکنا لوجی کا بہت اچھا استعمال کیا تھا۔ بس میں رش بالکل نہیں تھا، اگلی کچھ سیٹیں بزرگوں اور معذوروں کے لئے وقف معلوم ہو رہی تھیں۔ چڑھنے والے اگلے دروازے سے چڑھ رہے تھے اور اترنے والے پچھلے دروازے سے اتررہے تھے۔ دروازہ کھولنے اور بند کرنے کرنے کا کنٹرول بھی ڈرائیور کیپاس تھا۔ بس کے اندہی  ایک الیکٹرانک  ڈسپلے بورڈ تھا، جو نہ صرف تاریخ، وقت بلکہ آنے والے بس سٹاپ کے نام بتا رہاتھا۔ اگلے بس سٹاپ کے نام  نشر بھی ہو رہے تھے۔  اگر کسی مسافر کو اترنا ہوتا تھا تو اپنے سٹاپ سے پہلے گھنٹی بجا دیتا تھا۔سارا انتظام بہت معقول تھا۔یہاں کی زبان میںیوزر فرینڈلی

            میں بس کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ زیادہ تر رہائشی آبادیاں سڑک سے ذرا ہٹ کر بنی ہوئی تھیں، مکان ایک جیسے تھے اور بعض آبادیوں کے گرد تو چار دیواری بھی نظر آ رہی تھی۔ زیادہ تر سدا بہار کے  پیڑ لگ رہے تھے کہ اس سردی کے موسم میں ترو تازہ تھے۔  کہیںکہیں تو اتنا زیادہ سبزہ اور پیڑ تھے کہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی پارک کے اندر مکان بنا دئے گئے ہیں۔یہی حال شاپنگ مال کا تھا۔ لگتا تھا کہ بڑے بڑے پارکنگ لاٹ کے بیچ میں شاپنگ مالتعمیر کر دئیے ہیں،۔ مجھے کسی بھی جگہ ادھ بنا یا نا مکمل مکان نظر نہیں آیا جس میں لوگ رہائش پذیر ہوں۔مختلف راستوں سے ہوتے اس جگہ اترے جہاں سے کرایہ کا بیسمنٹ نزدیک معلوم ہو رہا تھا۔

            چھوٹا سا دو کمروں کا صاف ستھرا  بیسمنٹ تھا۔ اس کا رنگ و روغن اور نیا قالین بتا رہا تھا کہ اسے پہلی دفعہ کرایہ پر اٹھایا جا رہا ہے۔  ہم نے دل کو سمجھایا کہ کوئی سار ی عمر تو یہاں رہنا نہیں ہے بس اچھی ملازمت ملتے ہی کسی بہتر جگہ نکل لیں گے۔

            جیسا کہ انداز تھا،مالک مکان دیسی نکلے۔ ہمارا کافی طویل انٹرویو لیا گیا۔کب آئے؟ کہاں سے آئے؟  نوکری ہے یا نہیں ہے؟ کرایہ کس تاریخ کو دیا کرو گے؟ (دے بھی سکو گے یا نہیں)، کتنے بچے ہیں؟ مہما ن ہر وقت تو نہیں آیئں گے؟ سگریٹ تو نہیں پیتے؟ سامان کتنا ہے؟

            کرایہ چھہ سو ڈالر طے ہوا۔12 سو ڈالر دیں گے۔ ماہانہ بلوں کا ایک تہائی ہم دیں گے۔ کرایہ ہر مہینے کی پانچ تاریخیا  اس سے پہلے دیں گے۔ کرایہ نقد یا چیک کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ ایک گاڑی کی پارکنگ کی سہولت، ہر ہفتہ ایک کوڑے کا تھیلا (گاربیج بیگ)رکھ سکتے ہیں۔ زیادہ مہمان داری نہیں ہو گی۔ ہمارے ساتھ کوئی اور دوسرا نہیں ٹھیریگا۔ بجلی کم سے کم جلائیں گے۔ پانی بھی دیکھ بھا ل کر استعمال کریں گے وغیرہ  وغیرہ ۔

            یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک کار کی پارکنگ کی سہولت سے کیا مطلب ہے؟ارے بھائی کھلی جگہ ہے، ہم سڑک پر گاڑی پارک کر دیں۔ یہ کینیڈا ہے کوئی گاڑی چوری تو نہیں ہو جائے گی۔اور ہاں یہ گار بیج بیگ کا کیا چکر ہے؟  میرا خیال تھا کہ مالک مکان ہمیں نیا امیگرینٹ سمجھ کر ذرا سمارٹ بننے کی کو شش کر رہے ہیں۔

            موصوف مجھے بالکل پسند نہیں آئے۔ دورانِ گفتگو حضرت یہ بھی فرمانے لگے کہ وہ اپنی فیکٹری میں مجھے ورکر بھرتی کروا سکتے ہیں۔ نو ڈالر فی گھنٹہ ملیں گے۔ میرا خون کھول کر رہ گیا۔ میں، جس کے وطنِ عزیز میں درجنوں ماتحت تھے اسے فیکٹری  میں مزدوری کی پیشکش کی جارہیہے۔ کیا سمجھتے ہیںیہ حضرت اپنے آپ کو؟ ہم بس ذرا نئے ہیں۔ تھوڑے قدم جمنے دو۔ اس کے بعد تو ان  جیسے کئی  ہمارے آگے پیچھے  پھریں گے۔ بیگم میری کیفیت سمجھ گئیں، بات بدل  دی ورنہ شائد بات بڑھ جاتی اور مکان میرا مطلب ہے بیسمنٹ بھی ہاتھ سے جاتا۔

             باہر نکلے تو ڈالر اور روپے میں فرق کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔جب ہم نے جیب سے نکلنے والی رقم کاپاکستانی کرنسی میں حساب کتاب کرنا شروع  تو ہاتھوں کے طوطے اڑنے شروع  ہو گئے،ایک چھوٹی کافی سو روپے کی، ڈونٹ پچاس روپے کا،بس کاایک طرف کا کرایہ تین سو روپے۔ بہرحالیہ سوچ کر ذرا اطمینان ہوا کہ چونکہ ابھی وطنِ عزیز سے لائے ڈالر جو روپے میں خریدے تھے، خرچ کر رہے ہیں، اس لئے ایسا لگ رہا ہے۔ جس دن ڈالر میں کمانا شروع کریں گے یہ مسئلہ نہیں رہے گا۔

….. not only for newcomers