ماسی چپراسی کلچر سے آ گاہی
قسط نمبر 1
ماسی چپراسی کلچر سے ذاتی طور پر آگاہی ہو رہی ہے۔ اپ کو کھانے کی میز پر بیٹھنا ہے، کھانا ہے اور کھا کر اٹھ جانا ہے۔آپ پلیٹیں وغیرہ خود سے کچن سینک میں رکھیں گے تو اپ کو ٹوکا جائے گا اور طعنہ بھی مل سکتا ہے کہ یہ کینیڈا نہیں ہے۔
ناشتے میں پراٹھے بہت زبردست تھے۔ بالکل ایسے پراٹھے جو میں بچپن سے اپنے گھر میں پکتے اور کھاتے ایا تھا – طبیعت خوش ہوگئی اور ماضی یادآگیا۔ پتہ چلا کوئی خاتون اپنے گھر سے پراٹھوں کا یہ بزنس کرتی ہیں۔ یہ ان کی سپیشلٹی ہے اور ان کا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔
آج بازار سے روٹی آئے گی کہ آ ج روٹی پکانے والی آئی نہیں ہے۔ اس نے واٹس اپ پر خاتون خانہ کو مسیج کر دیا ہے۔ خاتون خانہ بل کھا رہی ہیں، غصہ کر رہی ہیں، لیکن کچھ کر نہیں سکتیں۔ ماسی مافیا کے اگے وہ بھی بے بس ہیں
کلوا مجھے بھائے نہ کلوا بنا چین نہ ائے
اپ کو کپڑے دھلوانے ہیں تو ٹوکری میں ڈال دیں۔ کپڑے دھونے والی ایک روز چھوڑ کرآتی ہے، استری کرنے والی الگ ہے، روٹی پکانے والی الگ ہے، جھاڑو پوچے والی الگ ہے۔ بلے بلے۔ میں اپنی طبیعت اور سوچ میں انقلابی تبدیلیاں محسوس کر رہا ہوں۔ میں اگر خود سے کام نہ کروں تو میری اس کاہلی یا ”نوابی ” سے کتنے لوگوں کا روزگار وابسطہ ہے۔ ثواب بھی ہے، کمیونٹی کی خدمت بھی ہے اور کمیونٹی کی خدمت تو ہمارا اولین فریضہ ہے۔ ایک اور بلے بلے
– اج صبح ایک دو جگہ لوگوں سے ملنے جانا تھا، ملاقات کا وقت اور جگہ سب طے تھی لیکن پروگرام منسوخ کرنا پڑا کہ ڈرائیور صاحب بیمار ہیں۔ لو کر لو گل۔
جن سے ملنا تھا، ان کو فون کر کے معذرت کرنی پڑی۔ بہت کوفت ہوئی لیکن کیا کیا جائے۔ یہ کوفت دوسرے دن کافی حد تک دور ہوگئی جب اگلے دن پروگرام کے مطابق دوسری پارٹی نہ تو ملنے ائی اور نہ ہی اطلاع دی۔ بعد میں بتایا” میں بھول گیا تھا ”۔ اللہ اللہ خیر صلا
مسئلہ چائے کا
قسط 2
صبح کا وقت ہے۔ چائے بننا مشکل ہے کہ گیس کا پریشر کم ہے۔ گیس پر یشر یہاں کی زندگی کا اٹوٹ انگ لگ رہا ہے۔ گیس پریشر نہیں تو گیزر بند ہو جائے گا اور اس کے اثرات دوسری صبح پتہ چلیں گے اور دیر تک پتہ چلتے رہیں گے (برائے مہربانی اس گیس پریشر کو معدہ کے گیس پریشر اور پیناڈول سے کنفیوز نہ کریں، معدہ کے گیس پریشر کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور یونیورسل ہے، جس کا زماں ومکاں سے کوئی تعلق نہیں ہے)۔
یہ پریشر کب بحال ہو گا یا بحال بھی ہو گا، کچھ پتہ نہیں۔ جیسے نئے الیکشن کا پتہ نہیں،آی ایم ایف کی قسط کا پتہ نہیں، نئے انتخابی اتحاد کا پتہ نہیں، خانصاحب ناا ہل قرار پائیں گے یا نہیں، توشہ خانہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ سب غیب میں ہے اور غیب پر یقین ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ گیس پریشر کے مزیر اثرات دوسری صبح نمودار ہوئے جب باتھ روم میں گرم پانی کی فراہمی معطل ہو گئی۔
– کسی کو کسی چیز کا پتہ نہیں ہے لیکن جب بات کرے گا تو آس طرح کہ موصوف اس شعبہ کے چیمپیئن ہیں۔ ماشائاللہ، الحمدللہ لیکن حقیقتا انا للہ۔
کوئی مہنگائی سی مہنگائی ہے۔ ایک ننھا سا انار۔ 119 روپے کا۔ ایک انار اور سو بیمار والا محاورہ صحیح
معلوم ہو رہا ہے۔ دل ہی دل میں توبہ کی کہ آئیندہ بازار میں چیزوں کے دام پتہ نہیں کرونگا انشائاللہ کہ بلڈ پریشر میں فوری اضافہ ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر میں کسی نہ کسی بات پر ہر روز مہنگائی کا طرح اضافہ ہوجاتاہے۔
گذشتہ شام ایک شادی کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریب کا وقت 8 بجے تھا، ہم اپنے حساب سے دیر سے یعنی ساڑھے 8 بجے پہنچے۔ تاخیر کی وجہ سے دل میں شرمندہ تھے۔ لیکن وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ہال خالی ہے۔ دولہا میاں ابھی فوٹو شوٹ سے فارغ ہو کر گھر تیار ہونے گئے ہیں۔ وقت گزرتا رہا، ہم خود کو بہلاتے رہے، ادھر ادھر کا جائزہ لیتے رہے، جو آگئے ان کی گفتگو سنتے رہے۔ خواتین و حضرات کی تیاری۔ دولہا کے دوستوں کے ایک جیسے شلوار سوٹ، جیکیٹیں، خواتین کے بھڑکیلے لباس(زیادہ تر ڈیزائنر کے تیار کردہ) بیوٹی پارلر سے تیاری، شادی ہال کی آرائش، قمقمے، تازہ پھولوں سے اراستہ سٹیج اور بعد میں پر تکلف کھانا۔ مجھے بہت اطمینان ہوا کہ پاکستان میں نہ تو غریبی ہے اور نہ ہی ملک کسی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ میڈیا وغیرہ سب بکواس کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے 11 بجے کھانا لگا۔ 12 بجے کے بعد فراغت ہوئی۔ کوئی جلدی نہیں ہے۔ صبح سویرے اٹھنے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ماسی بھی 12 بجے کے بعد آتی ہے۔ فجر کے بعد نیند کی ایک اور شفٹ
آرام سے لگ سکتی ہے۔
ذاتی، خاندانی اور سماجی تعلقات
قسط 3
دو چار دن میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ذاتی، خاندانی اور سماجی تعلقات قریب قریب ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے رودار نہیں۔ ہر ایک کو ہر ایک سے شکائت ہے۔ شکایات کیا ہیں؟۔ وہ ملنا نہیں پسند کرتے، فون نہیں کرتے، خیر خیریت نہیں پو چھتے۔ بچے کی شادی پر نہیں بلایا، میں عمرہ سے آیا تو مبارکباد تک نہیں دی، دولت کا غرور ہو گیا، بچے اچھی جگہ پڑھ دہے ہیں مزاج ہی نہیں ملتے وغیرہ وغیرہ
جب پوچھا کہ بھائی وہ اگر ملنے سے یا بات کرنے سے کترا رہے ہیں تو آپ خود رابطہ کر لیں تو کہا کہ ہم کوئی گرے پڑے ہیں کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ اس کے ساتھ ہی جناب نے اپنی مصروفیات کی ایک لمبی چوڑی فہرست پیش کر دی۔ لو کر لو گل
ہر لمحہ ایک تازہ شکائت ہے اپ سے
واللہ مجھ کو کتنی محبت ہے اپ سے
کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ لوگ بے حس ہوتے جارہے ہیں۔ دلوں میں گنجائش اور محبت کم بلکہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ شائید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ پہلے ہر خاندان میں ایک دو بزرگ ہوتے تھے۔ عید، بقرعید اور دوسرے مواقع پر بزرگوں کے پاس حاضری ضروری سمجھی جاتی تھی۔ زمانہ بدل گیا ہے۔جہاں ایک آ دھ جگہ بزرگ باقی ہیں بھی تو وہ اپنی جگہ رل رہے ہیں، کوئی پو چھنے والا نہی۔
پہلے گھروں میں میلاد، افطاری، روزہ کشاء اور بچے کی بسم اللہ وغیرہ کی تقاریب ہوتی تھیں اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ مہنگائیبھی ہے، لیکن دیکھا جائے تو اب مادیت پرستی غالب ہے سوشل میڈیا نے لوگوں کو تنہا کر دیا ہے۔ ماسی چپراسی کلچر میں ہر شخص اپنی جگہ حکمراں ہے۔ شو بازی پر وقت اور پیسے کے زیاں بے دریغ ہورہا ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے سے اگے نکلنے کے چکر میں لگا ہوا ہے۔
ٹریفک اور صفائی ستھرائی
قسط 4
کسی سیانے کا کہنا ہے کہ کسی شہر کا ٹریفک اس کی سماجی زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ یہ بات سو فیصد دل کو لگی جب اس دفعہ مجھے کراچی کے ٹریفک کا تجربہ ہوا۔ گاڑیوں، بسوں، رکشوں اور خاص طور سے موٹر سائیکل والوں کا حجوم جو ہر طرف سے چلا آرہا ہے۔ ون وے کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے، جس طرف جس کو موقعہ ملتا ہے اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل گھسا دیتا ہے۔ گاڑیوں میس سوار لوگ شیشے کھول کر ایک دوسرے کو لعنتیں دکھا رہے ہیں۔ لیکن کسی کو ایک دوسرے کی پرواہ نہیں ہے۔ جگہ جگہ ٹریفک جام۔ آدھے گھنٹے کا سفر میں دو دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ بے تحاشا پیٹرول ضائع ہوتا ہے جب کہ پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔
ایک چھوٹی سے موٹرسائیکل پر 5 لوگوں کی فیملی سوار ہے میاں بیوی اور تین بچے۔ یہ ایک عام بات ہے۔ ظاہر ہے خوشی سے نہیں، مجبوری کا سودا ہے۔ میں تو صرف یہ سوچتا رہا کہ یہ تین بچے جب بڑے ہونگے تو کس قسم کے شہری بنیں گے؟ نڈر، لاپرواہ، قانون شکن؟ کیا انہیں اپنی جان یا کسی اور جان کی پرواہ ہو گی-
صفائی نصف ایمان ہے۔ شہر کراچی کی صفائی کی دیکھ کر تو نصف ایمان وہیں داو پر لگ گیا۔ باقی نصف ایمان اس وقت داو پر لگ گیا جب ایک جاننے والے کے ساتھ سرکاری دفتر جانا ہوا۔ انہیں اپنے فلیٹ کے کاغذات اپنے نام پر رجسٹر کرانے تھے۔ سرکار کا سٹامپ پیپر ڈھائی ہزار روپے۔ 25 ہزار روپے”غیر سرکاری فیس”۔ لو کر لو گل۔
مجھے اطمینان تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ یہ 2 ٹکے کے بے ایمان سرکاری اہلکار اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ویسے بھی ایک دو کو چھوڑکر ساری مسلم امہ ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمیں صرف انڈیا کو قابو کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ کیا خیال ہے؟
کراچی بہت کچھ ہے اور بہت کچھ نہیں ہے لیکن میرے حساب سے ایک جادوئیشہر ہے۔ جیسے جیسے شام کے سائے پھیلتے ہیں، شہر کی گندگی غائیب ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ پورا شہر ایک فوڈ کورٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہر فٹ پاتھ پر اور جہاں فٹ پاتھ بھی نہیں، سڑک کے کنارے کرسیاں لگنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ نہ کہیں مہنگائی ہے، نہ لوگوں کے مسائل ہے۔ خوش گپیاں چل رہی
قبرستان کی حالت زار
۔ قسط 5
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کراچی یاترا میں کئی مساجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ ماشائاللہ تمام مساجد بہت صاف ستھری جسے اپ کہیں well maintained ملیں۔ دل بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ ساری خوشی اس وقت خاک ہو گئی جب مجھے پاپوش نگر کے قبرستان جانے کا موقع ملا-
کراچی آمد کے بعد پاپوش نگر کے قبرستان میں بزرگوں اور دیگر رشتہ داروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنا ہمیشہ کی طرح میری اولین ترجیحات میں تھا۔ اس دفعہ بھی میری یہی کوشش تھی کہ میں بزرگوں کی قبروں پرجلداز جلد حاضری دوں۔ جب میں نے گھر میں اس کا ذکر کیا تو مجھ سے کہا گیا کہ میں یا تو جمعہ کی نماز کے بعد قبرستان جانے کا پروگرام بناوں یا چھٹی کے دن۔ وہ بھی دن کے وقت، شام یا خاص طور سے مغرب کے بعد جانا محفوظ نہیں ہے۔ جان ومال دونوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
جمعہ کو جبمیں قبرستان پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے کیوں اور کیا ہدایات دی جاری تھیں۔ قبرستان میں گھستے ہی ایک ویرانی کا احساس ہوا۔ہر طرف گندگی، مٹی اور جھاڑیوں کے ڈھیر۔ مانگنے والوں کی کثرت۔ بائیں ہاتھ پر قبرستان کی نام نہاد انتظامیہ کا دفتر۔ جو دفتر سے زیادہ ” ڈیرہ” لگ رہا تھا جہاں اجنبی چہرے اجنبی زبان میں محو گفتگو تھے۔ فورا ہی اندازہ ہو گیا کہ جس طرح کراچی میں ہر طرف طاقتور مافیا کا راج ہے، یہاں بھی گورکن مافیا کا راج ہے۔ قبر کھودنے سے لے کر قبر کے کتبے اور قبر کی رکھوالی تک، اس کے درمیان بھی کئی منزلیں ہیں۔ قبرستان میں داخل ہوتے ہی کئی پانی ڈالنے والے کارکن میرے پیچھے لگ گئے اور اپنی اپنی خدمات پیش کرنے لگے۔
ہمارے بہت سے دوست پاپوش نگر کے تاریخ و جغرافیہ سے واقف ہی ہونگے۔کافی پرانی بات ہے جب ناظم اباد میں رہائشی مکانات بننے شروع ہوئے تھے۔ پاپوش نگر میں قبرستان کی جگہ مختص ہوئی تھی۔ اسی زمانے میں ہمارے دادا نے اس قبرستان میں پلاٹ الاٹ کرایا جس میں 12 قبروں کی گنجائش تھی اور اس کے ارد گرد چاردواری کھینچوا کر دروازہ لگوادیا کہ غیر ضروری مداخلت سے محفوظ رہے۔ اج اس قبرستان میں دادا میاں خود، میری دادی، میرے والد، والدہ۔ چچا، چچی، پھوپھی اور پھوپھا دفن ہیں۔ فاتحہ پڑھنے والوں کو بہت آسانی ہے۔ قبرستان میں جگہ جگہ قبریں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہی جگہ جا کر فاتحہ پڑھ لیں۔
پانی ڈالنے والوں سے جان چھڑا کر میں بڑی مشکل سے قبروں پر سے کودتا پھاندتا اپنے بزرگوں کے قبروں کے احاطہ میں پہنچ سکا۔ کئی جگہ جھاڑیوں اور پتھروں سے الجھ کر گرا بھی۔ ایک زمانہ تھا کہ اس احاطہ کے اس پاس چوڑی چوڑی راہداریاں موجود تھیں۔ چلنے پھرنے میں کوئیقباحت نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ ان راہداریوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے اور ان میں قبریں بنا دی گئی ہیں۔ پچھلی دفعہ بھی اتنا برا حال نہیں تھا، جتنا اس بار تھا۔ ہمیں یہ بھی ہوشیار کیا جا چکا ہے کہ قبرستان کی ” انتظامیہ” سے اچھے تعلقات رکھیں ورنہ احاطہ میں جو چند قبروں کی گنجائش ہے، اس میں بھی لوگ باہمی تعاون سے اپنے مردے دفن کر جائینگے اور اپ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ یوں تو قبرستان میں اب مزید قبروں کی گنجائش نہیں ہے لیکن ضرورت مندوں کے لئیے گنجائش پیدا کر لی جاتی ہے۔ کس طرح؟ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے
برنس روڈ کا پھیرا
قسط 6۔
اب سے چند سال پہلے میں جب بھی کراچی جاتا تھا تو برنس روڈ کا کم از کم ایک پھیرا ضرور لگاتا تھا اور یہ پھیرا گھر کی گاڑی یا ٹیکسی میں نہیں ہوتا تھا بلکہ پبلک بس میں ہوتا تھا۔اس پھیرے کی کئی وجوہات تھیں۔
پہلی بات تو یہ تھی کی میں کراچی کی بسوں میں لٹک کر سفر کرنے کی اپنی پرانی skill کو چیک کرتا تھا کہ کیا میں اب بھی دوڈ کر بس پکڑ سکتا ہوں یا چلتی بس میں سے اتر سکتا ہوں۔ بھری ہوئی بس میں عوام کے ساتھ interaction اور کنڈکٹر سے ٹکٹ لینے کی منہ ماری، عوامی زبان میں تکرار جیسے عوامل بھی اس کا حصہ تھے۔
یوں تو برنس روڈ کا پھیرا اصل میں اردو بازار کی وجہ سے لگتا تھا کہ وہاں اب تک میری انجینئرنگ کی کتابیں بک سٹورز سے فروخت ہوتی تھیں۔ اس بہانے دکانداروں سے سلام دعا ہو جاتی تھی اور مارکیٹ کی صورتحال بھی سامنے آ جاتی تھی۔
لیکن برنس روڈ کے پھیرے کا ایک بڑا مقصد برنس روڈ کی لسی اور نہاری سے لطف لینا ہوتا تھا۔ گھر میں بتاتا کہ برنس روڈ کا پھیرا لسی اور نہاری کو وجہ سے ہے تو میرے گھر والے تو شائید مجھے تالے میں ہی
بند کر دیتے کہ کینیڈا سے اکر یہ لسی نہاری بد ہضمی ہی نہ کر دے۔ خیر ہم بھی ایسے بھولے نہیں تھے ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بہانہ برنس روڑ اکیلے پھیرے لگانے کا نکال ہی لیتے تھے۔ لیکن چند سال پہلے اس کا ڈراپ سین ہو گیا۔
اس دن اردو بازار میں کتابوں کے پبلشر سے ملنے کے بعد باہر نکلا تو سامنے ہی بن کباب والے کا ٹھیلا کھڑا تھا۔ تازہ بن کباب آپ کے سامنے بن رہے ہوں تو کون زاہد و صابر صبر کر سکتا ہے۔ اس ناچیز نے اپنے اطراف کی فکر کئے بغیر بن کباب کا آرڈر دے دیا۔ میرے حساب سے بہت سستا سودا تھا کہ ایک بن کباب کی قیمت چند کینیڈین سینٹ تھی، ہم ویسے بھی کفائیت شعاری کو پسند کرتے ہیں۔
اس کے بعد ہوا کچھ اس طرح کہ ہم بن کباب تناول فرمانے کے بعد برنس روڈ پہنچ گئے۔ پہلے نہاری اور نان سے انصاف کیا۔ پھر ندیدوں کی طرح لسی والے کی دکان پر پہنچ گئے۔ پہلے لسی کا بڑا گلاس پیا، لمبی ذکار لی اور ساتھ ہی ربڑی کا ارڈر دے دیا۔ ربڑی سے فارغ ہوکر باہر نکلے۔ سوچا گھر والوں کے لئے کچھ چاٹ وغیرہ پیک کرا لیں تو اس میں دو قباحتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ گھر والوں پر راز کھل جائے گا کہ اگر میں نے برنس روڈ سے چاٹ پیک کرائی ہے تو خود کیا کچھ نہیں کھایا ہو گا۔ اب ایسے ننھے بھی نہیں ہیں کہ برنس روڈ سے گھر والوں کے لئے تو چاٹ پیک کرا لیں اور خود منہ سکھا کر گھر اجائیں۔ دوسری قباحت یہ تھی کہ چاٹ کا پیک لے کر بس میں چڑھنا اور اسے حفاظت سے لے اترنا بھی بڑا چیلینج تھا، پتہ نہیں بس میں کتنا رش ہو۔
خیر مجھے برنس روڈ سے ناظمآباد کی بس مل گئی۔ رش زیادہ نہیں تھا، مجھے بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔
بس پہلے صدر گئی، ایمپریس مارکیٹ، گرومندر اور پھر لس بیلہ۔ ابھی تک سفر بالکل نارمل تھا، میں بھی اونگھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ برنس روڈ سے چاٹ پیک کروا ہی لی ہوتی تو اچھا تھا۔ ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ بس کنڈکٹرنے چلا کر بس کنڈکٹر کو مخاطب کیا
” استاد، اسی چوراسی 8084 پیچھے ارہی ہے، دبی رکھ”
استاد نے فورا ایکسیلیٹر پر پاوں رکھا اور بس فراٹے لینے لگی۔ زناٹے سے لس بیلہ کا پل کراس کیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا، اسی چوراسی بھی تیز رفتاری سے پیچھا کر رہی تھی۔
” بس رضویہ پر نہیں رکے گی۔ چورنگی پر ہلکی ہو گی، پھر سیدھا پیٹرول پمپ۔ ”
گویا بس انکوائری آفس پر بھی نہیں رکے گی۔
بس کنڈکٹر نے جیسے ہی اعلان کیا، مسافروں میں بھگدڑ مچ گئی۔ مجھے تو اپنی فکر پڑ گئی کہ بس پیٹرول پمپ کے بعد کہیں رکتی بھی ہے یا سیدھے سبھاو حیدری پہنچ کر دم لے گی۔بس چورنگی پر ہلکی ہوئی، ایک دو مظلوم یا مجھ جیسے ایڈونچر کے مارے چلتی بس سے اترے، اترے کیا اترنے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک دوڑتے رہے۔ مجھے اپنا حشر دکھائی دینے لگا۔توقع کے عین مطابق پیٹرول پمپ گزارنے کے بعد بس بقائی ہسپتال پر بھی نہیں رکی۔”نارتھ کا پل کے بعد بس سیدھی حیدری جائے گی، بورڈ افس پر کسی کو اترنا ہے تو بس ہلکی ہوگی، اتر جاو” کنڈیکٹر نے اعلان کیا۔
مجھے بورڈ آفس ہی اترنا تھا۔ میں کھڑا ہوا تو کنڈکٹر نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا شائید وہ سوچ رہا تھا کہ بڑے میاں شائید اتر تو جائیں مگر ائیندہ کسی بس میں چڑھنے کے قابل نہ رہیں۔ بورڈ افس اگیا، ڈرائیور نے بس ہلکی کی، کنڈکٹر نے اشارہ کیا اور بندے نے ” چھال ” مار دی۔ چھال تو ماردی، بندہ کہیں، بیک پیک کہیں۔ ذرا حواس بحال ہوئے تو اندازہ ہوا کہ جہاں میں بس سے اتراتھا وہاں سے میں کم از کم 15 گز دوڑتا ہوا، دوڑتا ہوا کیا رگڑتا ہوا پہنچا تھا۔ جسم کے سارے جوڑ ہل چکے تھے لیکن اللہ تعالٰی کا شکرانہ ادا کیا کہ کوئی چوٹ نہیں لگی۔ میں نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ ائیندہ اس قسم کے ایڈونچر سے پرہیز کرونگا۔ برنس روڈکی نہاری کھانی ہے تو رکشے ٹیکسی سے جاونگا، بس کے سفر سے
بس ہوگئی ہے۔
ایک دوستانہ مکالمہ
قسط 7 (آخری قسط)
اچھا۔ تو تم کینیڈا سے اگلے ہفتے کراچی پہنچ رہے ہو۔ چلو پہنچنے کی اطلاع دے دینا۔ ملنے کا پروگرام بناتے ہیں، کچھ گپ شپ رہے گی
اچھا پہنچ گئے۔ چلو تم بھی اپنے جیٹ لیگ سے فارغ ہو لو، میں بھی کچھ مصروف ہوں۔ ملاقات کا پروگرام بناتے ہیں۔ ابھی تو تم یہاں کراچی میں تین ہفتے کے لئے تو ہو نا۔
ارے یا ر کیا بتاؤں۔ پورا ہفتہ مصروف گزر گیا۔ ڈرائیور بھی چھٹی گیا ہوا ہے۔ چلو کچھ کرتے ہیں۔ ابھی تو تم کراچی میں دو ہفتے تو ٹھیروگے؟
بس کیا بتاؤں۔ سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ تم ٹھیرے بھی ناظم آباد میں ہو۔ یہاں ڈیفینس سے تمہارے گھر کا فاصلہ، ٹریفک، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔ توبہ توبہ۔ سنو تم ایسا کیوں نہیں کرتے۔ میری طرف ڈیفنس آجاؤ۔ تمہیں ڈیفنس کلب میں چائے پانی کرادیں گے۔ کچھ بڑے لوگوں سے تمہاری ملاقات بھی کرا دیں گے۔ ہا ہا۔ یہ ٹھیک رہے گا
کیا کہا اگلے ہفتے واپس جا رہے۔ یار تمہیں کہا تو تھا کہ ادھر میری طرف آجاؤ۔ ڈیفنس کلب میں تمہیں چائے شائے پلا دیں گے، کچھ بڑے لوگوں سے ملوا بھی دیں گے۔ لیکن تم نے میری بات ہی نہیں سنی۔ یار برا نہ ماننا۔ تم کینیڈا اور امریکہ والوں کے ساتھ یہ بڑی مصیبت ہے۔ اتنی لمبی فلائیٹ پکڑ کر کراچی تو آجاتے ہو اور پھر گھر میں گھس کر بیٹھ جاتے ہو۔ چلو خیر اس دفعہ تو ملاقات نہیں ہوسکی اگلی بار دیکھتے ہیں۔ اللہ حافظ