مے آئی ہیلپ یو

ہمارے سوشل انشورنس کارڈ اور بچوں کے داخلے کے مرا حل تو بخوبی انجام پائے لیکن چائلڈٹیکس کا معاملہ ابھی باقی تھا۔  پتہ نہیں یہ چائلڈٹیکس کیا بلا ہے؟ کیا یہ ہم سے کسی قسم کا ٹیکس لیں گے وہ بھی بچوں کے معاملے میں۔ ہم تو ابھینئے آئے  ہیں۔مکان مالکن سے یوں تو کافی بات چیت رہی لیکن چائلڈٹیکس کا پوچھنا ہی بھول گئے۔ چلیں اللہ مالک ہے۔ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موصل کے دھماکوں سے کیا ڈرنا۔

            اصل میں ہمارا پروگرام تھا کہ پاکستان سے چلنے سے پہلے انٹرنیٹ کے ذریعے کینیڈا سے متعلق ساری ضروری معلومات اکٹھا کر لیں گے۔ لیکن ایک تو ہمارا امیگریشن توقعات سے کہیں پہلے ہو گیا دوسرے بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ہمارا کمپیوٹر بھی خراب ہو گیا اور خراب بھی ایسا ہوا کہ چلنے سے پہلے اسی خراب حالت میں فروخت کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہم کینیڈا کے لئے روانہ ہوئے تو ہمارے پاس کینیڈا سے متعلق بہت کم معلومات تھیں۔

            ہر کام کے لئے مکان مالکن کو زحمت دینا بھی اچھا نہیں لگتا تھا، اور آج کا کام بھی ذرا لمبا لگ رہا تھا اس لئے ہم لوگوں نے خود ہی” ملٹی کلچرل کمیونٹی سنٹر” جانے کا ارادہ کیا جہاں سے کچھ مدد ملنے کی توقع تھی۔ہمیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کمیونٹی سنٹر کس قسم کا ادارہ ہے، پرائیویٹ ہے یاحکومتی ادارہ ہے؟ بس یہ اطمینان تھا کہ اس کی خدمات مفت ہیں۔ اب چل کر ہی دیکھتے ہیں؟

            جب بچے سکول چلے گئے تو میں اور بیگم بس سے” کمیونٹی سنٹر” روانہ ہوئے۔ بس میں چڑھتے وقت ڈرائیور کو بتا یا کہ ہم اس علاقے میں نئے امیگرینٹ ہیں اور ہمیں کمیونٹی سنٹر جانا ہے۔

            خاتون بس ڈرائیور ذرا مسکرائیں۔” کوئی مسئلہ نہیں ہے نئے امگرینٹس زیادہ تر وہیں جاتے ہیں۔ لائبریری کا سٹاپ کہلاتا ہے “

            لائبریری کا سٹاپ آ گیا ڈرائیور نے آواز لگائی اور ہم اسے تھینک یو کہہ کر اتر گئے۔

            کمیونٹی سنٹر کے استقبالیہ پرہم نے بتایا کہ نئے امیگرینٹ ہیں،کچھ رہنمائی چاہئے۔

”     نہیں ” ہم نے جواب دیا

            “آپ لوگ بیٹھیں، اگر کوئی کونسلر فارغ ہوا توآپ کی ملاقات کرا دیتے ہیں “

            ہمیں ایک فارم بھرنے کے لئے دیا گیا جس میں ذاتی معلومات مثلاً نام، پتہ، کینیڈا کب آئے، تعلیم کیا ہے؟ کتنے بچے ہیں، وغیرہ وغیرہ کا اندراج کرنا تھاکچھ سوالات ہماری سمجھ میں نہیں آئے مثلاً

            آپ ریفیوجی ہیں یا فیملی کلاس؟  ریفیوجی کیا مطلب؟

            قانونی طور پر ملازمت کرنے کے اہل ہیں یا نہیں؟

            انگلش کلاسز میں داخلہ لینا ہے یا نہیں، چائلڈ کئیر کی ضرورت ہے؟  اور اسی طرح کے دیگر سوالات۔ جو سوالات سمجھ میں نہیں آئے وہ ہم نے چھوڑ دئے۔

            ہم نے فارم بھرنے کے بعداستقبالیہ پر جمع کرادئے۔آس پاس زیادہ تر ہماری ہی طرح کے نئے امیگرینٹ نظر آ رہے تھے۔ نوٹس بورڈ پر مختلف پروگراموں کے فلائر لگے تھے،ملازمتوں کے اشتہارات بھی تھے۔ فوٹو کاپی اور فیکس کی مفت سہولت بھی تھی۔

            ابھی ہم جائزہ لے ہی رہے تھے کہ ایک خاتون ہمارے قریب آئیں اور کہا

            “مے آئی ہیلپ یو  “یہ وہ جملہ ہے جو یہاں بکثرت بولا جاتا ہے

            ” میں یہاں سٹلمنٹ کونسلرہوں۔ میرا کام آپ جیسے نئے آنے والوں کی رہنمائی اور مدد کرنا ہے”

            وہ ہمیں اپنے آفس لے گئیں۔  ان کے ہاتھ میں ہمارے بھرے ہوئے فارم بھی تھے۔انہوں نے فارم پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا

            “آپ نے فارم میں اپنا آئی ڈی نمبر نہیں بھرا ہے۔ کیا آپ کے پاس آپ کے لینڈنگ پیپر ہیں؟”

            ہمارے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ آئی ڈی نمبر کیا ہے۔ بہرحال ہم نے اپنے لینڈنگ پیپر انہیں نکال کر دے دئیے کہ وہ خود ہی تلاش کر لیں۔

            “کیا میں اس کی فوٹو کاپی کر سکتی ہوں، اصل میں ہمیں آپ کی فائل کھولنی ہے اور یہ فوٹو کاپی آپ کے ریکارڈ میں لگے گی”

            “کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں یہ بتائیں کہ کیا یہ گورنمنٹ کا ادارہ  ہے؟” میں نے ان سے پوچھا

            “نہیں یہ گورنمنٹ کا ادارہ نہیں ہے یہ نان پرافٹ ادارہ ہے، جسے آپ این جی او کہہ لیں۔ لیکن ہمارے بیشتر پروگراموں کی مالی اعانت حکومت کی طرف سے ہوتی ہے۔ نئے امیگرینٹ کا سٹلمنٹ یعنی آبادکاری کا پروگرام بھی حکومت کی طرف سے ہی ہے۔ آپ ہمیں ایک طرح سے نئے امیگرینٹ کے لئے سٹلمنٹ ایجنسی بھی سمجھ سکتے ہیں “۔

            کونسلرنے ہم لوگوں سے کئی سوالات کئے۔ مثلاً سوشل انشورنسفارم بھرا یا نہیں؟ چائلڈ ٹیکس بینیفٹ کے فارم بھر دئے ہیں؟ ہیلتھ انشورنس لی یا نہیں؟ بنک اکاوئنٹ کھولا یا نہیں؟ سارے کاغذات انگلش میں ہیں یا ان کو ترجمہ کرانے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے کونسلر کو بتایا

            ۔سوشل انشورنس نمبر کی درخواست دے دی ہے

            ۔ بینک اکاؤنٹ کے لئے یہاں سے نکل کر جائیں گے۔

            ۔ہمیں ہیلتھ انشورنس لینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں تو ہیلتھ کی سہولیات مفت ہیں؟

            ۔ چائیلڈ ٹیکس کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے

            ۔  ہمارے سارے کاغذات یا تو انگلش میں ہیں یا ان کا انگلش میں ترجمہ موجود ہے۔

            ” نئے امیگرینٹس کے لئے نوے دن تک سرکاری ہیلتھ انشورنس کی سہولت حاصل نہیں ہوتی۔اس عرصے کے لئے آپ چاہیں تو کوئی نجی ہیلتھ انشورنس پالیسی لے لیں۔ تین مہینے کی پالیسی چار پانچ سو ڈالر تک  میں مل جائے گی” کونسلر نے ہمیں بتایا

            میرے سر پر ایک بم سا پھٹا۔ تین مہینے تک سرکاری ہیلتھ انشورنس کی سہولت نہیں ہے؟چار پانچ سو ڈالرکا خرچہ؟ یہ تو اچھی خاصی رقم ہے، وہ بھی تین مہینے کے لئے، اتنے پیسے کہاں سے آئینگے۔ یہ رقم تو ہم نے اپنے بجٹ میں رکھی ہی نہیں تھی۔ اس بارے میں کافی غورو فکرکی ضرورت ہے۔

             “یہ کینیڈاچائیلڈ ٹیکس کیا ہے اور کیا ہمارے لئے ضروری ہے” میں نے پوچھا

            کونسلر نے مجھے کینیڈاچائیلڈ ٹیکس کا فارم نکال کر دیا اور اس سے متعلق تمام تفصیلات فراہم کیں، جس کا لب لباب یہ تھا

            کینیڈاچائیلڈ ٹیکس بینیفٹ حکومت کی طرف سے کم آمدنی والے لوگوں کے لئے ایک طرح کی مالی معاونت ہے۔ جن بچوں کی عمر18سال سے کم ہے، ان کے لئے فی بچہ دو سوڈالر سے کچھ زیادہ ادا کیا جاتا ہے، لیکن حتمی رقم کا تعین خود سرکار کرتی ہے۔ گو کہ آپ اس رقم کے حقدار اس دن سے ہی قرار پاتے ہیں جس دن آپ نے کینیڈا میں قدم رکھا تھا۔ لیکن کاغذی کارروائی ہوتے ہوتے کافی وقت لگ جاتا ہے۔  پہلی دفعہ چائلڈٹیکس بینیفٹ آپ کو اکٹھا ملے گا لیکن ا سکے بعد ماہانہ ملا کرے گا۔

            میں نے دل میں سوچا کہ رقم ملے تو! مجھے ملے یا بیگم کو، دیر ملے سویر ملے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بس ملنا چاہئے۔ 90 دن تک طب وصحت کی سہولت نہ ملنے کا جو غم تھا وہ چائلڈٹیکس بینیفٹ کی وجہ سے قدرے کم ہو گیا۔

            “اگرآپ کو ملازمت کے سلسلے میں کسی قسم کی مدد چاہئے تو میں آپ کو کسی ایمپلائمنٹ کونسلر سے ملوا دیتی ہوں ” کونسلر نے کہا

            “جی وہ کسی اور وقت مل لیں گے” میں نے مختصر سا جواب دیا۔

            میرا خیال تھا مجھے ملازمت کے سلسلے میں کسی کونسلر سے ملنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے پاس تعلیم اور کافی تجربہ ہے

ذرا ان ابتدائی کاموں سے فارغ ہو لوں، دو چار جگہ ریزیومے ڈالوں گا، کہیں نہ کہیں نوکری مل ہی جائے گی۔
کونسلر نے ہمیں پورے ادارے کادورہ کرایا،کئی پروگراموں کے اشتہاری پرچے (فلائر)بھی دئے جو ہم نے شکریے کے ساتھ رکھ لئے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ان فلائر کو بعد میں پڑھ لیں گے تاکہ معلومات میں اضافہ ہو۔
ہمارے لئے یہ دورہ بہت معلوماتی اور مفید رہا۔ ہمیں بہت حوصلہ ہوا اور یہ بھی اندازہ ہواکہ کینیڈا میں زندگی شروع کرنے کے لئے یہاں کے ماحول اور حالات کو سمجھنے کی اورخود کو نئے سانچے میں ڈھالنے، ور سبکچھ نئے سرے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔اپنے طور پر طرم خان بنے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
ہم لوگ یہاں سے نکل کر قریبی بینک میں چلے گئے۔ یہاں اچھی خاصی لمبی لائن تھی۔ قطار میں کھڑا ہونے کے بعد میں نے دفع وقتی کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو میری نظر ایک بینک کارکن پر آ کر رک گئی۔ اس نے کچھ عجب حلیہ بنا رکھا تھا۔ بالوں کو لال نیلا رنگ کیا ہوا تھا، بال اس طرح کٹوائے تھے کہ مرغے کی کلغی سی بن گئی تھی۔ کانوں، گردن اور ہاتھو ں میں ہر طرح کے زیورات پہن رکھے تھے، ساتھ ہی موصوف نے ٹائی بھی لگا رکھی تھی۔
یا الٰہی بینک والوں نے بھی کیسے کیسے نمونے بھرتی کر لئے ہیں، یہ کام کیا خاک کرتا ہوگا اس کو تو بننے سنورنے سے ہی فرصت نہ ملتی ہوگی۔ لگتا ہے یہاں بھی سفارشیں چلتی ہیں، ہو گا کسی بڑے بینک افسر کا بھائی بھتیجا۔ خیر رشتہ دار کسی کا بھی ہو اس وقت اس سے پالا نہ پڑے، ا یسا نہ ہو کچھ الٹا سیدھا کردے۔ لیکن شاید دعا کی قبولیت کا وقت نہ تھا۔
جب اس کلغی والے نے ‘مے آئی ہیلپ یو ‘کہا توقطار میں ہم ہی لوگ سب سے آگے کھڑے تھے۔ بادل نخواستہ
ہمیں اس کے کاؤنٹر پر جانا پڑا۔ رسمی کلمات کے تبادلے کے بعد میں نے اسے اپنا مسئلہ بلکہ سارے مسائل اکٹھا بتانے کی کوشش کی۔ اس نے میری بات غور سے سنی، ایک دوسوالات کئے اورکام شروع کر دیا۔
اس نے میرے ساتھ تقریباً بیس منٹ صرف کئے اور پھر مجھے تفصیلاً بتایا کہ اس نے کیا کیا ہے؟ جب اس نے اپنے طور پر مکمل تسلی کرلی کہ ہم اسکی سروس سے مطمئن ہیں تو اس نے میری گلو خلاصی کی۔کاوئنٹر چھوڑنے کے بعد میرادل اسشخص کے لئے تشکر کے جذبات سے لبریز تھا۔ اس کی کلغی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی صرف اس کی دوستانہ آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی۔
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

….. not only for newcomers