کینیڈا میں پہلی عید


کینیڈا میں یہ ہماری پہلی عید تھی۔ یہاں ہر سال عید کی نمازوں کاا ہتمام مختلف مساجد اور دینی تنظیمیں کراتی ہیں، اور اس طرح شہر کے مختلف حصوں میں چھوٹے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ ہم مقامی اردو اخباروں میں پڑھ رہے تھے کہ اس دفعہ مساجد اور دینی تنظیمیں کچھ اس طرح کا اہتمام کر رہی تھیں کہ تمام مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر مثلاً سکائی ڈوم (موجودہ نام راجرز سینٹر) میں عید کی نماز پڑھیں تو ایک بڑا اجتماع ہو سکتا ہے۔ اس طرح ٹورانٹومیں مسلمان، دیگر کمیونیٹیز اور حکومت کو اپنی تعداد اوریکجہتی کا احساس دلا سکتے ہیں جس کے بہت دوررس اور مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اسکائی ڈوم ٹورانٹو کی ایک اور عظیم الشان عمارت ہے جو بالکل سی این ٹاور سے ملی ہوئی ہے اورتقریباّ ۲ملین سکوائیر فٹ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔
گو کہ یہ ایک بہت اچھاخیال تھا، لیکن اسکے کئی عملی اور قابلِ غور پہلو بھی تھے۔ پہلی بات یہ تھی کہ ٹورانٹو اور اس سے ملحقہ شہر ایک وسیع رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو عید کی نماز کے لئے سکائی ڈوم تک پہنچنے کے لئے کافی طویل فاصلہ طے کرنا ہوگا، جس کے لئے وقت اورسواری دونوں درکار ہیں۔ ان تمام مسائل کے باوجود منتظمین کی متفقہ رائے تھی کہ سکائی ڈوم میں نمازِ عید کا اہتمام کیا جائے اور سی این ٹاور سے اذان دی جائے۔
اب ہمارے پاس گاڑی تو تھی نہیں اس لئے ہمارے لئے صبح سویرے سکائی ڈوم پہنچنا بڑا مسئلہ تھا۔ بہرحال بسیں بدلتے ہوئے ہم کسی نہ کسی طرح وہاں وقت پر پہنچ ہی گئے۔
ادھر امام صاحب نے اعلان کیا کہ صفیں سیدھے کر لیں، ادھر ہمارے چھوٹے صاحبزادہ نے ہنکاری بھری
” ابا مجھے واش روم جانا ہے”
:تھوڑی سی دیر ٹھیر جاؤ، یہ نماز زیادہ لمبی نہیں ہے۔ جلدی ختم ہوجائے گی”
“نہیں میں ٹھیر نہیں سکتا”
بچے کی بے چینی دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ ایک ایمرجینسی صورت حال ہے اور اس میں ذرا سی تاخیر بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے بچے کا ہاتھ پکڑاا ور صفوں سے باہر نکل آیا۔ اب سکائی دوم کوئی چھوٹی سی جگہ ہے نہیں اور رضاکار بھی اب نماز کے لئے صفیں باندھ رہے تھے۔
خیرمیں اندازہ سے روانہ ہوا، قسمت اچھی تھی کہ قریب میں ہی واش رومز کی ایک لمبی قطار نظر آ گئی۔
میں نے بیٹے سے کہا “چلو اندر”
بیٹے نے پہلے تو قدم آ گے بڑھایا پھر رک گئے اور فرمانے لگے
“یہ تو لیڈیز واش روم ہیں “
میں نے دیکھا تو واقعی لیڈیز واش روم کا بورڈ نظرآیا۔ اب ایک تو ادھر نماز کھڑی ہو چکی تھی دوسرے یہ اندازہ نہیں تھا کہ مردانہ واش روم کدھر ہیں اور کتنی دور ہیں؟
“بیٹا اب اسی میں چلے جائیں، دوسرا واش روم ڈھونڈنے میں وقت لگ جائے گا، اور نماز بالکل ہی نہیں ملے گی”میں نے کہا
خیر صاحب زادہ اس بات پر تیار ہوگئے۔ لیکن کہنے لگے کہ
” مجھے ڈر لگے گا۔ ابو آپ بھی اندر چلئے”یہ صورتِ حال کچھ صحیح نہیں تھی۔
میں نے کہا “بیٹا آپ اندر چلیں میں تو اندر جا نہیں سکتا میں باہر سے گانا گاتا رہونگا تاکہ آپ کو ڈر نہ لگے”
اب آپ صورتِ حال ملاحظہ فرمائیں کہ ایک دیسی سکائی ڈوم کے لیڈیز واش روم کے باہر کھڑا گانا گا رہا ہے۔ میں نے د ل میں سوچا کہ اگر اس وقت کوئی سیکوریٹی والا راؤنڈ پر آ گیا تو یہ سمجھیں کہ عزتِ سادات بھی گئی۔ خیر اللہ اللہ کر کے موصوف باہر نکلے، بہت پرسکون اور خوش۔ لیکن ان سے زیادہ میں خوش تھا، عزتِ سادات بچنے پر!
بھاگ کر پہنچے تو نماز ابھی شروع ہوئی تھی۔ غالباً امام صاحب لوگوں کی یاد دہانی کے لئے نمازِ عید کی ترتیب وغیرہ میں کچھ وقت دے چکے تھے۔ نماز ختم ہوئی تو ہمارا وہاں کون جاننے والا تھا۔ آپس میں ہی عید مل لئے یا کسی نے خود ہی بڑھ کر گلے لگا لیا۔ بہر حال یہ تسلی تھی کہ کینیڈا میں ہماری پہلی عید کی نماز شانِ شایان طریقے سے ہو گئی۔
ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہعید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے دوپہر کا کھانا جیراڈ سٹریٹ پر کھائیں گے۔ جیراڈ سٹریٹ کے کھانوں کے متعلق تو بہت سنا تھا، لیکن اسکے محلِ وقوع کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ٹورانٹو کے نقشے سے وہاں جانے والی بسوں اور راستے کا تھوڑا بہت اندازہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ ایک جانے والی بس میں سوار ہو گئے۔ بس ڈرائیور سے کہہ دیا کہ جب جیراڈ سٹریٹ آئے وہ ہمیں بتا دے گا۔
جیسے ہی جیراڈ سٹریٹ آئی، ڈرائیور نے اعلان کیا، ا میگرینٹ فیملی وہیں اتر پڑی، آگے پیچھے دیکھے بغیر!
ہمارا خیال تھا کہ جیراڈ سٹریٹ ہماری برنس روڈ کی طرح ہو گی، جہاں فٹ پاتھ سے ہی کھانے پینے کا سلسلہ شروع ہو رہا ہوگا، لیکن یہاں ایسا کچھ نہ تھا، بلکہ یہ کچھ پرانا اور رہائشی قسم کا علاقہ تھا۔ ہم نے سوچا کہ ایسا تو نہیں ہیں کہ ہم غلط اتر گئے ہیں لیکن سڑک پر لگے پوئے بورڈ پر جیراڈ سٹریٹ لکھا تھا۔ ہم نے سوچا کہ اتر تو گئے ہی ہیں اب آگے چل کر دیکھتے ہیں۔ ایک دو بلاک چلنے کے بعد، کچھ دکانیں نظر تو آئیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی پاکستانی ہوٹل نہیں تھا۔ اب بوندا باندی بھی شرو ع ہو چکی تھی، اور سردی میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی چکر میں ہم لوگ تین چار بلاک اور آگے آ چکے لیکن منزلِ مقصود دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میری ہمت بھی جواب دے رہی تھی، لیکن بچوں کی مایوسی کو سامنے رکھتے ہوئے میں سب کی ہمت بندھا رہا تھاکہ سامنے ایک نوجوان شلوار قمیض میں جاتا ہو انظر آیا۔ میں نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر اسے بڑھ کرسلام کیا اور عید مبارک کہا۔
پہلے تو وہ نوجوان ذرا سٹپٹالیکن پوری امیگرینٹ فیملی دیکھ کر ذرا سنبھلا۔ ہم نے اسے اپنا مقصد بتا یا اور کسی حلال ہوٹل کا پتہ پوچھا۔ جب اسنے کہا کہ ہم سیدھے چلتے چلے جائیں اور تقریباً دو بلاک کے بعد کئی حلال گوشت والے ہوٹل مل جائیں گے، تو ہماری جان میں جان آئی اور ارادے دوبارہ جوان ہونے لگے۔ ہم نے اسے خدا حافظ کہا اورآگے روانہ ہو گئے۔
واقعی دو بلاک کے بعد وہ جگہ آ گئی جس کے تصور میں ہم لوگ یہاں تک آئے تھے۔ آس پاس دیسی کھانوں کی کئی دکانیں اور ہوٹل تھے، جن میں زیادہ بڑی تعداد انڈین ہوٹلوں کی تھی۔ سامنے کے ایک ہوٹل پر حلال لکھا دیکھ کر ہم اندر جانے والے ہی تھے کہ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے پگڑی باندھے سردا ر جی نظر آ گئے۔
اب تو ہمیں شبہ ہو گیا کہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں حلال لکھا ہو وہاں واقعی ذبیحہ کا گوشت ملے۔ بیگم سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جاے۔َ ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ ہوٹل ڈھونڈنے کے بجائے، حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ صحیح جگہ کونسی ہے؟
ا ب تک ہم لوگ بارش سے پوری طرح بھیک چکے تھے اور سردی سے دانت بج رہے تھے۔ اتفاق سے سامنے ہی ایک حلا ل گوشت کی دکان تھی۔ میں اندر چلا گیا اور یہی سوال دکان والے سے کیا۔ اس نے کہا
” یہاں کئی پاکستانی ہوٹل ہیں، آپ ان میں کسی بھی چلے جائیں، انشاللہ آپ کو حلال گوشت سے تیار کی ہوئی ڈشیں ملیں گی”
اس نے ہمیں تین چار ہوٹلوں کے نام بتا دئے۔ ہم اس کا شکریہ اداکے باہر نکل آئے۔ اور اس کے بتائے ہوئے ناموں میں سے جو پہلا نام سامنے آیا اس ریسٹورانٹ میں گھس گئے۔
گھس تو گئے لیکن اندر سناٹا پڑا تھا، آدم نہ آدم زاد۔ کاوئنٹر تک خالی تھا، جب کہ ہمارا خیال تھا کہ عید کا دن ہے، ہوٹل کو کھچا کھچ بھرا ہونا چاہئے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عید کی چھٹی ہو، کیا پتہ یہ کینیڈا ہے بھئی۔ لیکنروشنیاں سب جل رہی تھیں، اور ہال بھی گرم تھا۔
خیر ہماری کھٹ پٹ سن کراندر سے ایک صاحب برآمد ہوئے۔ سلام دعا اور عید مبارک کے بعد کہنے لگے
” عید کی وجہ سے ہمارا سٹاف تو چھٹی پر ہے۔ اسلئے اپنے گاہکوں کی خاطر آج میں میری بیگم کچن کا کام سنبھا ل رہے ہیں۔ آپ تشریف رکھیں، دیر سویر تو ہو جائے گی لیکن انشااللہ آپ کو کھانا اچھا ملے گا”
یہ سب کچھ سن کر ہم لوگوں کی جان میں جان آئی۔ سب سے پہلے ہم لو گوں نے اپنی گیلی جیکٹیں،مفلر اور ٹوپیاں کھونٹی پرلٹکائیں۔ جب سب باری باری واش روم سے منہ ہاتھ دھو کر اورتازہ دم ہو کر نکلے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم سب کتنے بھوکے اور تھکے ہوئے ہیں۔
ہوٹل والے نے ہمارے سامنے مینو رکھتے ہوئے پوچھا
“آپ پہلیچائے لیں گے یا کھانا ہی کھائیں گے۔ عید کی خوشی میں اس وقت کی چائے ہوٹل کی جانب سے مفت ہے”
ہم نے مینیوکارڈ توایک طرف رکھ دیا اور پوچھا کہ کیا چیز تیار ہے؟
ہوٹل والے نے کہا “بریانی اور قورمہ تیار ہے۔ اگر آپ چکن تکہ، اور سیخ کبا ب لیں گے تو اس میں تھوڑی دیر لگے گی۔ نان میں بھی تھوڑی دیر لگے گی۔ تنور گرم ہونے میں بھی ذرا دیر ہے، اور پھر کام کرنے والے ہم دو ہی لوگ ہیں “
کھانے کے نام سن کر تو ہم لوگوں کی بھوک بھڑک اٹھی۔ میں نے سب لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا
“بریانی تو ابھی لے آئیں اور ساتھ میں دو چائے۔ بعد میں چکن تکے، کباب اورنان وغیرہ”
منہ میں پانی بھر آیا۔یہ سب کچھ کھائے ہوئے بھی کافی عرصہ ہو گیا تھا۔
ہم لوگ اپنا آردڑ دے ہی رہے تھے کہ دو تین لوگ اور بھی آ گئے، لیکن وہ لوگ روزانہ کے گاہک لگ رہے تھے کیوں انہوں نے ہوٹل کے مالک سے دور سے سلام دعا کی، عیدکی مبارک باد دی، وہاں پڑے ہوئے اردو کے اخبار اٹھائے اور آپس میں گپ شپ میں لگ گئے۔
پانچ منٹ کے اندر بھاپ اٹھتی ہوئی بریانی، رائتہ، سلاد اور ساتھ میں گرم چائے کی کیتلی ہماری میز پر موجود تھی۔ وطن سے دور، عید کے دن اور سردی اور بارش میں بھیگنے کے بعد اللہ کی یہ نعمتیں، جی چاہ رہا تھا وہیں سجدہ شکر بجا لائیں۔ ہم سب لوگوں نے جلدی جلدی اپنی پلیٹیں سیدھی کی اور شروع ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں تکہ، کباب اور نان وغیرہ بھی آ گئے۔ ہر چیز بہت خوش ذائقہ تھی اور بہت محنت سے بنائی گئی تھی۔ سب نے جی کھول کے اور پیٹ بھر کے کھایا۔ مجھے نہیں لگتا کہ خود میں نے کبھی اس سے زیادہ کھایاہوگا۔ ہمیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ بل کتنے کا آئیگا؟
جب ہم کھانے کے اختتام پر تھے تو ہوٹل کی مالکن خود نکل کر آئیں، سلام دعا کی اور کھانے کے بارے میں تاثرات پوچھے۔ کھانے کی تعریف اور سروس کے بارے میں ہمارے تاثرات سن کر بہت خوش ہوئیں۔ پھر پوچھنے لگیں
” آپ لوگ پان کھایئں گے؟ “
عید کے دن اور پان، کون انکار کر سکتا ہے اور پھر ہمارے لئے تو یہ ایک خوشگوار سی حیرانگی تھی۔ کھانے کے بعد جب بل آیا تو وہ ہمارے انداز ے سے بہت کم تھا۔ ہمیں اس بات کی خوشی تھی کی کینیڈا میں ہماری اور ہمارے بچوں کی پہلی عید ایک خوشگوار تجربہ کے طور پر ہمیشہ ہماری یادوں میں رہے گی۔

….. not only for newcomers